شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والی صنعت کو تیز رفتار ترقی دینے کے لیے ممکن ہے کہ غورو خوض اور توجہ کا رخ آسانی سے زیادہ پیچیدہ چیزوں کی جانب منتقل ہوجائے جیسا کہ سولر پینلز کی فراہمی، اس صنعت کو ریگولیٹ کرنے اور بجلی کی تقسیم کا پائیدار نظام۔ لیکن اس ساری سوچ و بچار میں بنیادی چیز سے توجہ ہٹ جائے اور وہ یہ کہ کسی ملک میں سورج کی روشنی کیسی ہے اور کتنے گھنٹوں کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو بلا شبہ ہمارے ملک پر اس حوالے سے قدرت کی خاص رحمت ہے۔ شمسی توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے معاشی طور پر فائدہ مند ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی جگہ پر کم از کم چار گھنٹوں کے لیے سورج کی روشنی بھر پور طور پر دستیاب ہو۔
یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ سورج کی بھرپور روشنی (peak sunlight) سے مراد طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے درمیان کوئی خاص وقت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دن پوری طرح روشن ہو اور سورج کی روشنی سولر پینلز پر سیدھی پڑے۔ زیادہ تر ممالک میں 300 ایسے دن ہوتے ہیں جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ نکلتا ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور کے سیف اللہ خان، محمود الحسن اور محمد اسلم خان کے 2012ء کے ریسرچ پیپر کے مطابق پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں پیک سن لائٹ (peak sun light) کا دورانیہ 7 سے 8 گھنٹے ہوتا ہے، اس ریسرچ میں 1931ء سے 1990ء تک کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا گیا۔
یوں پاکستان میں شمسی توانائی کا حصول ایک منطقی چیز ہے یہاں تک کہ اگر ہم توانائی ذخیرہ کرنے والی ٹیکنالوجی کی صلاحیت کو بھی ذہن میں رکھیں۔
سولر پینلز کی کم ہونے والی قیمت، جو کہ ایک دہائی میں 60 فیصد کم ہوچکی ہے، کی بدولت توانائی حاصل کرنے کا شمسی ذریعہ پاکستان کے لیے دوسرے کسی بھی ذریعے سے بہتر ہے۔
اعدادوشمار مگر مختلف کہانی سناتے ہیں، نیپرا کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2020ء تک پاکستان میں شعبہ توانائی کی پیداوار میں شمسی توانائی کا حصہ صرف 0.58 فیصد تھا اور اسے ملک کی توانائی پوری کرنے کا اہم ذریعہ بننے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔
نیپرا کے ڈیٹا میں بلاشبہ نجی شعبے کی جانب سے شمسی ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی شامل نہیں ہے، اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ملک میں نجی شعبے کی جانب سے سولر پینلز کے ذریعے قابل ذکر بجلی پیدا کی جارہی ہے مگر چونکہ یہ پینلز نینشل گرڈ سے منسلک نہیں ہیں لہٰذا ان سے بننے والی بجلی کو ملک کے شعبہ توانائی کی پیداوار میں شمار نہیں کیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیے: وہ چار پاکستانی جو اپنے کاروبارسے سماج کو بدل رہے ہیں
2004ء میں 10 لاکھ ڈالر کے سولر پینل درآمد کیے گئے مگر30 جون 2017ء تک ان کی درآمد کا مالی حجم بڑھ کر 77 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک جا پہنچا تھا تاہم 2019ء میں اس سولر پینلز کی درآمد میں کمی دیکھنے میں آئی اور صرف 40 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے سولر پینلز درآمد کیے گئے۔ 2014ء سے 2019ء تک سالانہ بنیادوں پر سولر پینلز کی درآمد کے مالی حجم میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا۔
سولر پینلز کی زیادہ تر درآمد بڑے منصوبوں کے لیے کی گئی مگر گھریلو، کمرشل اور صنعتوں میں استعمال کے لیے بھی یہ بڑی تعداد میں درآمد کیے گئے۔ ملک میں توانائی کے بڑھتے بحران اور عوام کی جانب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں پر سپلائی کے حوالے سے عدم اعتماد میں اضافے کے باعث سولر ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
کیا شمسی توانائی پاکستان کا مستقبل ہو سکتا ہے؟ شائد ہاں! لیکن صرف اس صورت میں جب حکومت راستے سے ہٹ جائے۔
طلب، رسد اور اخراجات
شمسی توانائی کے حامی تو چاہتے ہیں کہ اسے مکمل طور پر اپنا لیا جائے اور بہت سے گھر اور کمپنیاں ایسی ہیں بھی جو مکمل طور پر سولر پاور پر منتقل ہوگئی ہیں۔
حکومت سے بہر حال یہ اُمید لگانا کہ وہ فوری طور پر توانائی کے حصول کے لیے شمسی توانائی کی طرف چلی جائے گی فی الحال مشکل ہے۔ اگر کبھی توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کا رخ کرنے کا سوچا بھی گیا تو یہ کام آہستہ آہستہ ہی ہوگا۔
تو کیا شمسی توانائی پاکستان کا مستقبل بن سکتی ہے؟ آخر ہم کتنی بجلی استعمال کر رہے ہیں؟
عالمی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق پاکستان میں بجلی کی اوسط مانگ 19 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ ملک کی اوسط پیداوار 15 ہزار میگا واٹ کے قریب ہے۔ گرمیاں جب اپنی جوبن پر ہوتی ہیں تو ائیر کنڈیشنرز کا استعمال بڑھ جانے کی وجہ سے مانگ 20 ہزار میگاواٹ ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ لوڈ شیڈنگ کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

آئی ای اے نے ہی پیشگوئی کی ہے کہ 2025ء تک پاکستان کی معیشت کے پھیلاؤ اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے بجلی کی مانگ 49 ہزار میگاواٹ ہوجائے گی، یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے جس کے حل کے لیے حکومت کو توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف دیکھنا چاہیے اور شمسی توانائی اس حوالے سے ایک بہترین انتخاب ہے۔
اس حوالے سے بھی حکومت سے یہ اُمید نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ گھر گھر جا کر زبردستی سولر پینل لگوائے گی، حکومت جو کرسکتی ہے اور جو اسے کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ شمسی توانائی کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کرے اور اس سلسلے میں موجود رکاوٹیں دور کرے۔
پاکستان میں اب بھی 5 کروڑ 10 لاکھ افراد بجلی سے محروم ہیں اور یہ چیز حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ بجلی آج کے دور کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن بجلی سے محروم لوگوں تک یہ سہولت پہنچانے کیلئے توانائی کے پرانے ذرائع ہی کیوں استعمال کیے جائیں؟
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے نعمان خان کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سولر پینلزکو صنعتوں کے استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں عام لوگ اسے آسائش سمجھتے ہیں لیکن یہ جلد ہی ضرورت بن جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: کیا الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں بگ تھری کی اجارہ داری کا خاتمہ کر سکیں گی؟
انکا کہنا تھا کہ شروع میں سولر انرجی کا استعمال لوڈ شیڈنگ کے توڑ پر کیا جاتا تھا لیکن یہ ایک کم قیمت بجلی فراہم کرنے والا سسٹم ہے۔ سولر سسٹم سے حاصل ہونے والی بجلی 6 روپے فی یونٹ میں پڑتی ہے اور اگر بیٹری کا استعمال کیا جائے تو یہ قیمت 9.5 روپے فی یونٹ ہوجاتی ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بجلی کی فی یونٹ قیمت 18 سے 25 روپے ہے اور تمام تقسیم کار کمپنیوں کا ٹیرف مختلف ہے۔ اس کے مقابلے میں سولر سستا ہے اور یہی چیز اسے صارف کے لیے پر کشش بناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل تو شمسی توانائی کا ہی ہے اور ایسا دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے، جرمنی اور امریکا میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ شمسی توانائی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، آخر کیوں؟ نعمان خان کا کہنا تھا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی ابھی سے اس حوالے سے اقدامات اُٹھانا شروع کردیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔
حکومت کا کردار
تو شمسی توانائی کے فروغ میں کیا چیزمانع ہے؟ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اگرچہ حکومت کو اس کو فروغ دینا چاہیے مگر وہ الٹا اس سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے ۔ 1997ء کے جنریشن، ٹرانسمیشن، اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ کے مطابق نیپرا ملک میں پاور سیکٹر کا واحد ریگولیٹر ہے۔
نیپرا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے، معیار کا تعین کرنے، سرمایہ کاری کی منظوری، توانائی کی خریداری، ٹیرف کا تعین اور بجلی کی تقسیم کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔
متبادل توانائی ترقی بورڈ (اے ای ڈی بی) کا قیام قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی سہولت کاری کے مقصد کیساتھ ایک خود مختار ادارے کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس کا کام وفاق کی سطح پر ان منصوبوں کے لیے وَن ونڈو سہولت کاری فراہم کرنا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے قابل تجدید توانائی کے فروغ کی مدد کے لیے پہلا ٹھوس قدم 2006ء میں اُٹھایا گیا جب اس نے قابال تجدید توانائی کی ترقی کے کے لیے پالیسی تشکیل دی۔
متبادل توانائی ترقی بورڈ نجی سرمایہ کاروں کی مدد سے کم قیمت متبادل توانائی کے منصوبوں کے قیام پر عمل پیرا ہے جس میں حکومت پاکستان کا کردار سرمایہ کاروں کو ملک میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے ترغیب دینا ہے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومتیں بھی متحرک ہیں مگر پنجاب حکومت ملک میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے اقدامات کرنے میں سب سے آگے ہے۔
یہ بھی پڑھیے: عالمی بینک شمسی توانائی منصوبوں کیلئے 10 کروڑ ڈالر دیگا، معاہدہ طے
حکومت نے متبادل توانائی ترقی بورڈ کو 2030ء تک بجلی کی مجموعی پیداوار میں شمسی توانائی کا حصہ پانچ فیصد تک لانے کا ہدف دے رکھا ہے۔ اگرچہ یہ انتہائی چھوٹا ہدف ہے مگر اسے پورا کرنے کے لیے کام کی رفتار بھی نہایت سست ہے۔ متبادل توانائی ترقی بورڈ کو سندھ اور بلوچستان کے سات ہزار 874 دیہات کو متبادل اور قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی فراہمی کا ٹاسک بھی دیا گیا ہے تاہم انڈسٹری کو درپیش مشکلات کے باعث یہ مشکل کام ہے یہاں تک کہ نیشنل گرڈ مییں پانچ فیصد سولر انرجی شامل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے سولر تھرمل ڈویژن کے سربراہ سعید حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل قابل تجدید توانائی میں ہے جس میں شمسی توانائی سرفہرست ہے مگر رینٹل پاور سٹیشنز شمسی توانائی کو فروغ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی لوڈ شینڈنگ میں کمی کے لیے کرائے کے بجلی گھروں کو ادائیگیاں کی ہیں اور اگر حکومت سولر اور رینٹل پاور کمپنیوں کو ادائیگیاں کرتی ہے تو یہ دونوں ہی ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرسکیں گے۔ تقریباً پوری دنیا سولر انرجی کی طرف منتقل ہورہی ہے مگر ہم کوئلے اور رینٹل پاور کی طرف جارہے ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
شمسی توانائی پر منتقل ہونے میں مسئلہ کیا ہے؟
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ سولر پینل کا ہر حصہ درآمد کیا جاتا ہے جس سے چیزیں مشکل ہوجاتی ہیں، مقامی افراد کہتے ہیں کی حکومت انھیں سولر پینل کے پارٹس ملک میں تیار کرنے میں مدد نہیں دیتی جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ غیر معیاری میٹریل درآمد کرتے ہیں۔ اس لڑائی کے باعث نیشنل گرڈ میں پانچ فیصد بجلی شمسی ذرائع سے شامل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے صدر نعمان خان کہتے ہیں کہ ایک کنٹینر میں 150 سے 200 کلو واٹ کی سولر انرجی ہوتی ہے اور پاکستان میں سولر پینل کے ہر سال 5 ہزار 700 کنٹینرز آتے ہیں جن میں سے ہرایک کی پیداواری صلاحیت 150 کلو واٹ ہوتی ہے۔ ہر کنٹینر کی قیمت دس روپے ہے اور اس حساب سے مارکیٹ کا مالی حجم 57 ارب روپے بنتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صرف سولر پینلز کا اندازہ ہے جب کہ سولر پینل کی اوسط مارکیٹ 50 سے 60 ارب کے درمیان ہے۔ پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار نعمان خان کی بات تصدیق کرتے ہیں جن کے مطابق 2019ء میں پاکستان میں 56 ارب روپے کے سولر پینلز درآمد کیے گئے۔

نعمان خان کا مزید کہنا تھا کہ انورٹرز، بیٹریاں، کیبلز ، فریم، نٹ بولٹ اور افرادی قوت کو ملا کر ملک میں سولر پینل کی مارکیٹ 100 ارب روپے سے زائد کی ہے۔ شمسی توانائی کی مارکیٹ کا واسطہ زراعت، کمرشل، صنعت، اور گھریلو شعبے سے پڑتا ہے۔ ہماری مارکیٹ اس سسٹم سے سولر ٹیکنالوجی کی صورت میں 1000 میگاواٹ درآمد کر رہی ہے۔ 70-80 فیصد درآمدات چین سے جبکہ باقی جرمنی، امریکا، کوریا، تائیوان، ملائیشیا وغیرہ سے کی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئلے اور ایل این جی کی شمولیت سے پاکستان میں بجلی کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں اور حالیہ گرمیوں میں تین سے چار اے سی چلانے والے گھروں کا بل 40 سے 50 ہزار کے درمیان آئے گا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان خود سولر پینل کیوں نہیں بنارہی؟ اس پر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے افسر سعید حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں ہے جو خام مال کو سیلیکون میں تبدیل کرسکے۔ فوٹو وولٹیک انڈسٹری کو سیلیکون چاہیے ہوتا ہے اور ہمارے شمالی علاقہ جات میں اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ہمیں خام سیلیکون کو خالص سیلیکون میں تبدیل کرنے کے لیے صنعت کی ضرورت ہے جو کہ ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنا خام سیلیکون چین بھیجتے ہیں جہاں چار سے پانچ کمپنیاں اسے خالص سیلیکون میں تبدیل کرکے سولر پینلز بناتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: تھرکول پاور پراجیکٹ اتنا ہی متاثر کن ہے جتنا اسکے بارے میں بتایا جاتا ہے؟ یا کہانی کچھ اور ہے؟
انکا مزید کہنا تھا کہ فوٹو وولٹیک ( سولر پینل ) سب سے پہلے جرمنی اور امریکا نے ایجاد کیے اور جب انھوں نے اس پر کام کا آغاز کیا تب یہ باقی سب کے لیے انجان چیز تھی جبکہ 1990ء میں وہاں سولر پینلز کی تنصیب کا آغاز ہو چکا تھا۔ جب اس صنعت کو فروغ ملا تو چین سب پر بازی لے گیا، جسے اب سستی افرادی قوت کی وجہ سے شکست دینا خاصا مشکل کام ہے۔
سعید حسین کی بات مکمل طور پر درست نہیں ہے، اگرچہ چین سولر پینل انڈسٹری میں سب سے آگے ہے مگر ایسا سستی لیبر کی وجہ سے نہیں ہے۔ ایپل کے ٹم کوک کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’چین ایک دہائی قبل سستی لیبر کا گھر ہوا کرتا تھا‘‘۔
چین کی برتری کی ایک وجہ وہاں ہر سامان بنانے والی کمپنیوں اور تکنیکی طور پر ہنرمند افراد کی بڑی تعداد میں دستیابی ہے جن کی مدد سے کمپنیاں سولر پینل جیسی پیچیدہ مصنوعات بناتی ہیں۔
تاہم سعید حسین اور حکومت کا مؤقف ہے کہ سولر پینل کی تنصیب کرنے والی کمپنیوں کے درمیان بڑھتے مقابلے کی وجہ سے یہ کمپنیاں قیمتیں کم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا رہی ہیں یہاں تک کہ غیر معیاری میٹیریل کی درآمد بھی کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چند پیسے بچانے کے لیے کچھ کمپنیاں غیرمعیاری میٹیریل درآمد کرتی ہیں لیکن اگر درآمد کنندگان معیار کا خیال رکھیں تو یہ پاکستان میں ایک شاندار کاروبار ہوسکتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سولر الیکٹرک سسٹم کی تنصیب میں استعمال ہونے والا زیادہ تر میٹیریل غیر معیاری ہوتا ہے۔ جب ہمارے کاروباری افراد سامان کی درآمد کرتے ہیں تو معیار کا خیال نہیں رکھتے بعض دفعہ وہ بی، سی یا ڈی کیٹگری کا سامان درآمد کرلیتے ہیں جسے دوسرے ممالک لینے سے انکار کر چکے ہوتے ہیں۔
اس غیر معیاری میٹیریل کے استعمال سے سولر پینل کچھ عرصے بعد خراب ہوجاتا ہے اور صارف کا پیسہ ضائع ہوجاتا ہے۔ حکومت نے اس مسئلے کے حل کےلیے جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر کوئٹہ میں ایک لیبارٹری قائم کی ہے جہاں درآمد کیے جانے والے سولر پینلز کے معیار ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ لیبارٹری 1200 ملین روپے سے قائم کی گئی اور اگلے دو سے تین سالوں میں ایسی ہی ایک اور لیبارٹری اسلام آباد میں قائم کی جائے گی۔ ان لیبارٹریز میں درآمد کیے جانے والے پینلز کے 17 سے 18 ٹیسٹ کیے جائیں گے اور صرف کامیاب پینلز کو ہی فروخت کرنے کی اجازت دی جائے گی تاکہ عوام کے پیسے کو محفوظ بنایا جاسکے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے صدر نعمان خان اس چیز سے متفق نہیں، وہ کہتے ہیں کہ غیر معیاری میٹیریل کی درآمد کا سلسلہ 2006ء سے چل رہا ہے۔ سابق صد پرویز مشرف نے 2006ء میں ایک پالیسی بنائی تھی جس کے تحت آج تک درآمد ہونے والے سامان کو ٹیکس سے استثنی حاصل ہے۔
2006ء سے 2010ء تک یہ صنعت بہت چھوٹی تھی جس کے گاہکوں کا تعلق دور دراز کے علاقوں یا این جی اوز سے تھا لیکن 2010ء کے بعد اس انڈسٹری نے تیزی سے ترقی کی اور یہ کمرشل بنی اوریہی وہ وقت تھا جب افغان تاجر ہماری مارکیٹ میں شامل ہوئے۔
نعمان خان کا کہنا تھا کہ ایسا دو وجوہات کی بنا پر یہ ہوا کہ افغانستان میں سولر پینلز اور اس سے جڑے میٹیریل کی درآمد پر ڈیوٹی عائد تھی جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں تھا دوسرا یہ کہ 2010ء تک مارکیٹ کی ویلیو 10 ارب روپے ہوگئی تھی۔ ان افغان تاجروں نے چین میں روابط بنائے اور وہاں سے غیر معیاری مال کی درآمد شروع کی جنھیں مختلف برانڈز کے سٹیکر لگا کر مارکیٹ میں فروخت کیا جانے لگا۔
یہ بھی پڑھیے: الیکٹرک وہیکلز پالیسی بن گئی، لیکن کیا پاکستان میں بجلی پر گاڑیاں چلانے کا منصوبہ کامیاب ہو پائے گا؟
اس وقت ہم برانڈز سے 70 روپے فی واٹ کے حساب سے مال منگوا کر 90 روپے فی واٹ میں بیچا کرتے تھے جبکہ افغان غیر معیاری مال 50 روپے فی واٹ کے حساب سے منگوا کر 70 روپے فی واٹ میں بیچتے تھے۔ اس چیز نے ہمیں نقصان پہنچایا جبکہ افغان مارکیٹ کو اس سطح پر لے گئے جہاں ہم دس سالوں میں نہیں لے جا سکتے تھے۔
یہی وہ دور تھا جب پاکستان سولر ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی گئی مگر جب 2014ء میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈٓار نے سولر آئٹمز کی درآمد پر ٹیکس لگائے تو اس ایسوسی ایشن کا باضابطہ قیام عمل میں لایا گیا تاکہ سولر انڈسٹری کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ نعمان خان کے مطابق ایسوسی ایشن کے قیام کے ذریعے سولر پینلز کی درآمد پر ڈیوٹیز کی چھوٹ اور سامان کا معیار طے کرنے کے حوالے سے کام کیا گیا۔
2015ء میں یو ایس ایڈ اور GIZ کیساتھ ملکر ایک پروگرام بنایا گیا اور جرمن سولر ایسوسی ایشن اور امریکی سول ایسوسی ایشن نے ہمارے ساتھ ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا، 2016ء میں ایسوسی ایشن نے ویلیو چین تجزیے کا انعقاد کیا اور آف گریڈ اور آن گریڈ میٹیرل کا جائزہ لیا گیا، انجینئرز کو جرمنی بھجوانے کے علاوہ مقامی سطح پر بھی ٹریننگ سیشنز کا اہتمام کیا گیا۔
یوں نعمان خان غیر معیاری سولر پینلز کی درآمد کا ذمہ دار افغانوں کو ٹھراتے ہوئے انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنے کا سارا کریڈٹ اپنی ایسوسی ایشن کو دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اب ملک میں غیر معیاری سولر پینلز کی درآمد نا ممکن ہے، اب ہم خود بھی حکومت کی اجازت کیساتھ غیر معیاری سامان کی نشاندہی کرکے ایکشن کی سفارش کرتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں ہم نے غیرمعیاری سامان کی نشاندہی کی جسے حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
کووڈ 19 کا کتنا اثر پڑے گا؟
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ سولر انڈسٹری بھی معیشت کا حصہ ہے اور مہلک کورونا وائرس کے مضر معاشی اثرات سے اسے بھی نقصان پہنچا ہے اور چونکہ سولرپینلز کو ضرورت کے بجائے آسائش سمجھا جاتا ہے اس لیے موجودہ حالات میں اس انڈسٹری کے کاروبار کو مشکلات کا سامنا ہے۔
سولر ایسوسی ایشن کے نعمان خان کے مطابق کورونا وائرس سے سولر انڈسٹری کو 10 سے 15 ارب کا نقصان ہوچکا ہے، وہ خود بھی حکومت کے ایک 100 میگاواٹ کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں مگر وائرس کے باعث اسکے دستاویزات کی تیاری میں تاخیر کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک امریکی سرمایہ کار بھی منصوبے کی منظوری کا منتظر ہے اور10 ارب روپے کا یہ منصوبہ پنجاب میں لگایا جائے گا مگر حالیہ صورتحال کے باعث 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری کو استعمال میں نہیں لایا جاسکا اور اس کے لیے ہم حکومت کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھرا سکتے کیونکہ وہ تو وائرس سے نمٹنے کے لیے مؤثر انداز میں اقدامات اُٹھا رہی ہے تاہم اگر سرمایہ کار منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو نقصان ہی ہوگا۔