یو اے ای: پاکستانیوں سمیت تارکین وطن میں ترسیلات زر کیلئے کرپٹو کرنسی مقبول ہونے لگی

545

دبئی: متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں سمیت تارکین وطن کی ایسی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو کرپٹو کرنسی اور بلاک چین سروسز کو تیزی سے اور سستے طریقے سے ترسیلات بھیجنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

یہ سروس استعمال کرنے والے 27 سالہ پاکستانی کسٹمر سروس ایجنٹ محمد بلال کہتے ہیں کہ “اب مجھے قطاروں میں انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، میں یہ کام گھر پر ہی اپنے موبائل فون سے کرتا ہوں اور رقم سیکنڈوں میں پہنچ جاتی ہے۔”

بلاک چین ڈیٹا پلیٹ فارم چین اینالسز (Chainalysis) کے مطابق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں گزشتہ سال دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی کرپٹو مارکیٹ تھی، اس خطے میں کرپٹو کی منتقلی 48 فیصد اضافے کے ساتھ اس سال جون تک 566 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

یو اے ای دبئی کو “بلاک چین سے مکمل طور پر چلنے والا پہلا شہر” بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نے ڈیجیٹل اثاثوں کے ارد گرد قوانین اور ریگولیٹری نظام تیار کیے ہیں کیونکہ یہ کرپٹو انڈسٹری کے لیے ایک مرکز بننے پر زور دیتا ہے۔

دبئی میں قائم فن ٹیک فرم Pyypl کے سی ای او اینٹی آرپونین (Antti Arponen) نے کہا کہ 2017ء میں اس کے لانچ ہونے کے بعد سے اب تک 50 لاکھ افراد نے اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کیا ہے جبکہ ہمارے 80 فیصد صارفین تارکین وطن ہیں اور پچھلے کچھ سالوں میں ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ادھر کرپٹو کرنسی کی طرف رخ کرنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ کرپٹو نے روایتی بینکنگ اور رقم کی منتقلی کی خدمات کے مقابلے میں ایک بہتر ڈیل کی پیشکش کی، اس کے باوجود کہ پچھلے سال کرپٹو مارکیٹ کریش ہوئی جس سے ڈیجیٹل کوئن رکھنے والے بہت سے لوگوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ایک 30 سالہ پیسٹری شیف جیرارڈ ڈنگل جو فلپائن میں اپنی ماں اور بہن کو پیسے بھیجنے کے لیے کرپٹو اور پیپل کا استعمال کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی ٹرانسفر کیلئے فیسیں تقریباً صفر ہیں، یہ  آسان، فوری اور محفوظ طریقہ ہے۔

لیکن اس طرح کے پلیٹ فارم صارفین کو سکینڈلز اور انتہائی غیر مستحکم کرنسیوں کے خطرے سے دوچار کرتے ہیں۔ برطانوی شہر نیو کاسل میں واقع نارتھمبریا یونیورسٹی میں کرپٹو ماہر اور بین الاقوامی ترقی کے اسسٹنٹ پروفیسر پیٹ ہوسن کہتے ہیں کہ صارفین جب اس طرح کے پلیٹ فارمز (کرپٹو اور بلاک چین پر مبنی ایپس) استعمال کرتے ہیں تو ان کے فنڈز کی انشورنس نہیں ہوتی، جیسا کہ بینک میں ہوتا ہے۔”

ایک رپورٹ کے مطابق یو اے ای کی کل آبادی کا تقریباً 90 فیصد تارکین وطن ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور مصر سے ہے۔ یہ تارکین وطن اپنے آبائی ممالک میں اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بھیجتے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر کم آمدن والے کارکن ہیں جو متحدہ عرب امارات میں بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے درکار پانچ ہزار درہم کم از کم ماہانہ آمدن حاصل نہیں پاتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں رقم کی منتقلی کی خدمات عام طور پر فی لین دین 25 درہم کی فیس وصول کرتی ہیں۔ لیکن کرپٹو کرنسیز میں ایسا نہیں ہے۔ تارکین وطن کریڈٹ کارڈز یا کرپٹو ایکسچینج دفاتر کا استعمال کرتے ہوئے کرپٹو خرید سکتے ہیں اور پھر اسے فوری طور پر اپنے اہل خانہ کے ڈیجیٹل والٹس میں منتقل کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد ان کے رشتہ داروں کو کرپٹو کرنسی کو مقامی کرنسی میں تبدیل کروانا پڑے گا۔ منتقلی کی لاگت عام طور پر یا تو مفت ہوتی ہے یا پھر 0.5 فیصد تک ہوتی ہے۔ عام طور پر مقامی کرنسیوں میں تبدیلی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ چارج کیا جاتا ہے، حالانکہ کچھ خدمات ایک سینٹ سے بھی کم چارج کرتی ہیں۔

خلیجی ممالک میں کرپٹو سروسز کیش ان کے طور پر، بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی تارکین وطن کارکنوں کے لیے ترسیلات زر کو گھر بھیجنا آسان اور سستا بنانے کے لیے تکنیکی سہولیات کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک نے “ڈیجیٹل درہم” کرنسی کا اعلان کیا ہے جس کا کہنا ہے کہ اس سے سرحد پار ادائیگیوں کو آسان بنانے اور مالی شمولیت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مارچ 2023ء میں اس نے ترسیلات زر اور تجارت کے لیے قومی ڈیجیٹل کرنسیوں کے سرحد پار لین دین کی سہولت فراہم کرنے کے لیے مشترکہ بنیادی ڈھانچے کو پائلٹ کرنے کے لیے بھارت کے ریزرو بینک کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

فارن ایکسچینج اینڈ ریمی ٹینس گروپ جو رقم کی منتقلی کی صنعت کے لیے متحدہ عرب امارات کا ادارہ ہے، نے اپنی 2022ء کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کے اراکین بھی تیزی سے موبائل اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کی پیشکش کر رہے ہیں۔

لیکن کچھ تارکین وطن جنہوں نے کرپٹو میں نقد رقم رکھی تھی کہتے ہیں کہ وہ کم خطرناک آپشنز کی تلاش میں ہیں۔ ایک مصری تارک وطن احمد عبدالفتاح کرپٹو میں سرمایہ کاری کرتا تھا اور ترسیلات بھیجتا تھا، لیکن 2022ء کے مارکیٹ کریش کے بعد اس کا ڈیجیٹل اثاثوں پراعتماد اٹھنا شروع ہو گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ “میں نے اپنی نصف سے زیادہ سرمایہ کاری کھو دی۔ یہ ایک بہت ہی غیر مستحکم مارکیٹ ہے۔

“اس لیے میں نے کرپٹو میں سرمایہ کاری کرنا بند کر دیا اور اب میں دوسرے آپشنز کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔“ اس کا مزید کہنا ہے کہ جب آپ سیاسی اور مالیاتی اداروں پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں تو بلاک چینز کارآمد ہیں … (لیکن) جب چیزیں غلط ہو جائیں تو کوئی بھی جوابدہ نہیں ہونا چاہتا۔”

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here