اسلام آباد: میڈیا میں کئے گئے تبصروں، تجزیوں میں بہت زیادہ امید کی جا رہی ہے کہ افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت دینے کے حالیہ فیصلے سے پاکستان کی توانائی کے درآمدی بل کو پورا کرنے میں مشکلات کم ہوں گی اور برآمدات کو بھی فروغ ملے گا۔ کچھ لوگ اسے “گیم چینجر” کہہ رہے ہیں۔
کیا ایسے اندازے حقیقت پر مبنی ہیں، یا ہم دِن میں خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا جدید دور میں بارٹر ٹریڈ نے کسی اور صورت حال میں کام کیا؟
یہ حقیقت ہے کہ جن تین ممالک کے ساتھ پاکستان بارٹر ٹریڈ کا منصوبہ بنا رہا ہے وہ سب سے زیادہ پابندیوں کے شکار ممالک میں شامل ہیں۔ انہیں امریکی ڈالر استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے، جو نہ صرف دنیا کی بنیادی ریزرو کرنسی ہے بلکہ بین الاقوامی تجارت کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی بھی ہے۔
اگرچہ بہت سے عالمی رہنما، بشمول برکس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، لگتا ہے کہ جلد ہی ڈالر پر انحصار کم ہو جائےگا۔ چین اَب 120 سے زائد ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
چونکہ ایران چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، اس لیے اس نے ہمیشہ امریکی کرنسی کا استعمال کیے بغیر تجارت کے نئے طریقے تلاش کیے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی اور مشرقی ایشیا میں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ کامیابی سے بارٹر ٹریڈ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
بھارت کی طرح کچھ ممالک کے ساتھ یہ تقریباً ایک دہائی سے روپیہ اور ریال کے خصوصی طریقہ کار کے ذریعے تجارت کر رہا ہے۔
اس طریقہ کار کے تحت ایران کی تیل کی تقریباً نصف رقم بھارت کے سرکاری بینکوں (یو سی او اور انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ بینک) میں روپوں میں جمع کی جاتی ہے۔ ایران اس رقم کو بھارتی اشیاء جیسے باسمتی چاول اور چینی وغیرہ خریدنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ابھی حال ہی میں ایران کو روس کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانے کا ایک بڑا موقع ملا ہے، جو پہلے ہی اس کا پانچواں بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں نے کئی دیگر شعبوں میں بھی تعاون بڑھایا ہے، خاص طور پر دفاعی شعبے میں۔ گزشتہ سال روس ایران میں 2.76 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ سب سے بڑا سرمایہ کار بن گیا۔
کئی نئے تجارتی راستے، جنہیں طویل تاخیر کا سامنا تھا، اب کھل رہے ہیں۔ ان میں انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) شامل ہے، جو ساڑھے 4 ہزار میل ریل روڈ، ہائی ویز اور شپنگ روٹس پر محیط ہے جو قفقاز کے علاقے سے گزرتا ہے، جو جون 2022ء میں کھلا تھا۔ پاکستان کے پاس سی پیک کو اُن نئے روٹس کے ساتھ جوڑنے کا موقع ہے۔
ان تینوں کے ساتھ پاکستان کی تجارت بالخصوص ایران کے ساتھ اس کی صلاحیت سے بہت کم ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی دو طرفہ تجارت، جس کا تخمینہ 2 ارب ڈالر ہے، ایران کی 53 ارب ڈالر کی عالمی درآمدات اور 41 ارب ڈالر کی برآمدات کا تقریباً 2 فیصد ہے۔
حال ہی میں اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان میں گوادر کو توانائی فراہم کرنے کے لیے 100 میگاواٹ کی پولن۔گبد بجلی کی ترسیلی لائن کو مکمل کرنا اور مند-پشین سرحدی مارکیٹ کا افتتاح شامل ہے جبکہ پانچ مزید سرحدی مارکیٹس بنائی جانی ہیں۔
البتہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اجازت ناموں کے طویل انتظار کے ساتھ ساتھ تاجروں کو دونوں طرف سے زیادہ ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر ایران اور افغانستان سے ہونے والی سمگلنگ کی وجہ سے قانونی تجارت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔
بارٹر ٹریڈ کو کامیابی سے چلانے کیلئے پاکستان اور ایران نے اگست 2006ء میں دستخط کیے تھےتاہم اب بھی ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) کا دائرہ کار بڑھانا چاہیے۔
حال ہی میں دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دو طرفہ آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کو تیزی سے مکمل کرنے کا عہد کیا ہے۔ تاہم ایف ٹی اے کی کامیابی کا انحصار اس معاہدے کی گہرائی اور وسعت پر ہو گا۔
اگر ایران کے ساتھ ایف ٹی اے اتنا ہی غیر ضروری ہونے والا ہے جیسا کہ ترکیہ کے ساتھ حالیہ تھا، جس میں 2 فیصد سے بھی کم ٹیرف لائنز شامل ہیں، تو پھر بارٹر ٹریڈ کے گیم چینجر ہونے کو بھول جائیں۔
خلاصہ یہ کہ جب تک پاکستان اپنے بارٹر ٹریڈ ریگولیشنز کو دوسری تجارتی سہولیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر لیتا، جیسا کہ نئے راستے کھولنا اور ایف ٹی اے، تو یہ اقدام بھی کسی دوسرے تجارتی معاہدے کی طرح ہو سکتا ہے جن پر پاکستان نے بہت دھوم دھام سے دستخط کیے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن ٹریڈ ایگریمنٹ (Ecota) اور Safta، جو تقریباً 20 سالوں سے موجود ہیں، ان معاہدوں کی دو مثالیں ہیں جو تجارت کی ترقی میں ناکام رہے۔