لاہور: آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہو گا کہ بلڈوزر اور پولیس اہلکار سرکاری ملکیتی اراضی کو خالی کروا رہے ہیں اور اسے تجاوزات سے بچا رہے ہیں جبکہ بیوروکریٹس بڑے اکڑ کر ساتھ کھڑے ہیں اور یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ مگر یہاں کسی بڑے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر یا قبضہ مافیا کو ایسے کام سے نہیں روکا جاتا۔ اس کے بجائے یہ انسداد تجاوزات مہم یا تو پوری طرح سے کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں کی مشتمل بستی کے خلاف ہوتی ہے یا پھر ریڑھی بانوں کیخلاف۔ جن کے پاس مناسب ‘اجازت نامہ’ نہیں ہوتا۔
یو این ہیبی ٹیٹ رپورٹ 2020ء کے مطابق پاکستان کی کل شہری آبادی کا 56 فیصد کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر 2020ء میں پاکستان کی ریکارڈ شدہ شہری آبادی کا حجم 8 کروڑ 40 لاکھ تھا تو تقریباً 4 کروڑ 70 لاکھ پاکستانی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس تعداد کو یوں سمجھ لیں کہ اتنی آبادی کو رکھنے کیلئے لاہور جتنے چار شہر درکار ہوں گے۔ تاہم نا صرف سرکاری حکام ان رہائشی بستیوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ انہیں مسلسل غیر قانونی تجاوزات کا نام دیتے ہیں اور ہمہ وقت اُن کی مسماری کے درپے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی رہتی ہے۔
پاکستان میں اس کی ایک بہترین مثال اسلام آباد ہے۔ وفاقی سطح پر تجاوزات کے تحفظ کا کوئی قانون منظور نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے دارالحکومت میں اس طرح کی مسماری کوئی سرکاری ادارہ جب چاہتا ہے شروع کر دیتا ہے۔ لیکن ہمارے بیوروکریٹس ایک وقت میں سینکڑوں لوگوں کو بلڈوز کرنے اور بے گھر کرنے پر اتنے خوش کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب اسلام آباد کے ماسٹر پلان اور اس کی تاریخ میں موجود ہے۔
اسلام آباد کے ماسٹر پلان اور اربن لے آئوٹ کے مطابق شہر کے گردونواح میں لیبر کیمپوں کی تعمیر شروع ہوئی جو بعد میں (آج کی) کچی آبادیوں میں تبدیل ہو گئے۔
یہ وہی میراث ہے جو آج اسلام آباد میں انسداد تجاوزات مہم کی حقیقت کو واضح کرتی ہے۔ ان آبادیوں کی قانونی حیثیت ضروری نہیں کہ قانون سازی یا دستاویزات کی عدم موجودگی سے متعین ہوتی ہے بلکہ اس سے حکمرانوں کا غریب مخالف تعصب آشکار ہے۔ یو این ڈی پی کے قانونی مشیر اور لاء اینڈ پالیسی چیمبرز کے پارٹنر عمر گیلانی نے پرافٹ کو بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک خوانچہ فروش کی غیر قانونی قید کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بوڑھا آدمی گزشتہ 30 سالوں سے فیصل مسجد کے سامنے ایک ہی جگہ پر قلفیاں بیچ رہا تھا۔ تاہم سی ڈی اے نے اس کا نوٹس لیا اور اس کی موجودگی کو تجاوزات کے زمرے میں ڈال کر اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا جس نے اس کے جرم کی پاداش میں پانچ ماہ قید کی سزا سنا دی۔
یہ تعصب پرانا ہے جو بار بار سامنے آتا رہتا ہے۔ اس بیانیے کو روکنے کیلئے آئین میں بیان کردہ انسانی وقار اور رہائش کے حق کا دفاع کرنے والی ایک مناسب پالیسی موجود ہے جو شاید ان “غیر قانونی” بستیوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔
ملک و قوم کو کچی آبادیوں کی وبا سے محفوظ رکھنے کا مشن تقریباً ایک دہائی قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں عجیب و غریب واقعات سے شروع ہوا۔
جی الیون کچی آبادی کے رہائشی امین خان نے 2014ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی اور نادرا کے خلاف درخواست دائر کی اور قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی درخواست کی۔ اگرچہ امین خان اصل میں فاٹا سے ہیں۔ انہوں نے شناختی کارڈ کیلئے جی الیون کا پتہ بھی لکھا جس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ انہوں نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اسلام آباد میں کچی آبادیوں کی موجودگی اور قانونی حیثیت کی وضاحت کرے۔
جون 2015 میں سی ڈی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں 42 غیر قانونی کچی آبادیوں کو ہٹانے کا چار مراحل پر مشتمل منصوبہ پیش کر دیا۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کے کنیکشن منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ کچی آبادی کے مکینوں کے خلاف غیر قانونی کنکشن رکھنے کی ایف آئی آرز درج کرانے کی تجویز پیش کر دی۔
اس پلان پر تیزی سے عمل درآمد کے لیے سی ڈی اے کے 700 ملازمین، پولیس کے 20 ریزروز، رینجرز کی ایک کمپنی سمیت کئی دیگر اہلکاروں کی مدد لی گئی۔
جولائی 2015 میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی جس میں سی ڈی اے کی جانب سے کچی آبادیوں سے زمین خالی کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ بعد ازاں عدالت نے آئی الیون کی کچی آبادی کو اس بنیاد پر ہٹانے کا حکم دیا کہ اس کچی آبادی کے مکینوں نے گرین بیلٹس اور 1985ء میں سی ڈی اے کی جانب سے لوگوں کو الاٹ کردہ 150 پلاٹوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق 2013ء میں آئی الیون کچی آبادی میں 864 خاندانوں آباد تھے جن کی آبادی 8 ہزار تھی۔ عدالت نے اس آبادی کو ہٹانے کا حکم دے دیا، اس لیے درجنوں رہائشیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایک ہزار افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج درج کیے گئے اور 15 ہزار سے زائد افراد کو راتوں رات بے گھر کر دیا گیا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ 2017 کے بعد سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بے دخلی کے اس عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا ہو گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے کچی آبادی ایکٹ پاس کیا ہے جو اس طرح کی من مانی اور غیر منصفانہ مسماریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق ان کو ہٹانے کا حکم دینے سے پہلے قیام کے لمبے عرصے کے اصولوں اور غیر رسمی بستیوں کے سائز پر غور کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک غیر رسمی بستی جس میں رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہے جو بجلی کے بلوں، لیز کے معاہدوں، یا بے روزگاری سے متعلق فوائد کے اندراج کے کسی بھی دستاویز کے ذریعے ثابت ہو سکتی ہے، تو ان کی آبادکاری کو قانون کے ذریعے تحفظ حاصل ہوگا۔ تاہم، جبکہ کیپیٹل ٹیریٹری کے پاس کچی آبادی کمیونٹی ڈیٹا بیس ہے اور سی ڈی اے کی جانب سے اب ان بستیوں کو تسلیم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اب تک تقریباً 55 کچی آبادیوں میں سے محض 11 کو تسلیم کیا گیا ہے۔