شوگر ملز مالکان کی کاروباری سیاست کی اندرونی کہانی

344

لاہور: پنجاب کے شہری مراکز کی ہنگامہ خیز زندگی سے بہت دور ملک کے کچھ  انتہائی طاقتور لوگ پچھلے کچھ سالوں سے ایک تنازعہ میں الجھ چکے ہیں جو بظاہر 5 شوگر ملوں کو وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب منتقل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

یہ پانچ ملیں پنجاب میں زرعی اراضی کے وسیع رقبے پر کنٹرول کی نمائندگی کرتی ہیں جو اس ملک کی معیشت اور عوام کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور چینی کی اس معیشت سے جڑے ہوئے صوبے کے سیاسی طور پر نمایاں خاندانوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔

زیر بحث پانچ ملیں یعنی حسیب وقاص شوگر ملز، چوہدری شوگر ملز، عبداللہ یوسف شوگر ملز، عبداللہ شوگر ملز، اور اتفاق شوگر ملز، یہ سب یا تو براہ راست شریف خاندان کی ملکیت ہیں یا پھر ان کے قریبی رشتہ داروں کی ہیں۔ 2016 میں یہ ملیں پنجاب حکومت سے خصوصی اجازت ملنے کے بعد وسطی پنجاب کے مختلف مقامات سے مظفر گڑھ کے قریب جنوبی پنجاب کے اضلاع میں منتقل ہو گئیں۔

مل مالکان پانی کی کمی والے وسطی پنجاب کے علاقے سے جنوبی پنجاب کی بہت زیادہ زرخیز زمینوں کی طرف جانا چاہتے تھے۔ اجازت اس لیے لینی پڑی کیونکہ حکومت کی نئی شوگر ملز کی تعمیر کے خلاف پالیسیاں تھیں لیکن اجازت حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے۔

اور اس مبینہ سیاسی اقربا پروری کی بنیاد پر پانچ ملوں کی منتقلی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس نے ان ملوں کے آپریشن کو فوری طور پر روک دیا۔  لاہور ہائیکورٹ میں کیس دائر کرنے والوں میں JDW شوگر ملز اوراشرف شوگر ملز بھی شامل ہیں جو کہ بالترتیب جہانگیر خان ترین اور چوہدری ذکا اشرف کی ملکیت ہیں۔ جہانگیرترین اس وقت پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری تھے جبکہ ذکا اشرف پیپلز پارٹی کے رہنما اور آصف علی زرداری کے ذاتی دوست ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری ممکنہ طور پر ملک کی سب سے طاقتور اور بااثر لابی ہے۔ ملک کی 91 شوگر ملوں میں سے تقریباً سبھی نامی گرامی سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ پچھلے 6 سالوں سے یہ طاقتور دھڑا سیاست کی وجہ سے آپس میں لڑائی میں مصروف ہے۔ لیکن پچھلے ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ ہوگئی، عمران خان کی بے دخلی اور پی پی پی اور ن لیگ کے اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ جہاں کبھی شوگر لابی سیاست کی وجہ سے تقسیم تھی وہیں اب ایک بار پھر سیاست کی وجہ ہی سے متحد ہو گئی ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اتحادی ہیں اور جہانگیر ترین کی نئی تشکیل دی گئی آئی پی پی پنجاب میں ن لیگ کی انتخابی شراکت دار نظر آتی ہے۔

بہرحال، پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ شوگر ملوں کو منتقل کرنے کی اجازت کیوں نہ مل سکی۔ یہ کہانی کچھ طویل اور پیچیدہ ہے۔ اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلے 1980 کی دہائی میں چلتے ہیں جب شوگر مالکان نے پہلی بار سیاسی اشرافیہ کا ساتھ دیا۔

مگر 80 کی دہائی سے بات شروع کرنے سے پہلے ضروی ہے کہ تھوڑا سا اس سے پہلے کے پس منظر کو بھی جان لیا جائے۔

اگست 1947 میں، پاکستان کے حصے میں صرف دو شوگر ملیں آئیں جو گھریلو ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تقریباً ناکافی تھیں۔

چنانچہ ابتدائی چند سالوں کے لیے چینی درآمد کرنا پڑی۔ 48-1947 میں پاکستان میں گنے کی پیداوار 54 لاکھ ٹن سے زیادہ تھی۔ اس گنے کا تقریباً 75 فیصد پنجاب میں اگایا جاتا تھا۔ چونکہ اس وقت ملک کی زمیندار اشرافیہ بھی اس کی سیاسی اشرافیہ تھی، اس لیے یہ واضح ہو گیا کہ ان میں سے بہت سے زمیندار جو گنے کی کاشت کر رہے تھے، اب شوگر ملیں لگائیں گے، چینی کو پراسیس کریں گے اور زیادہ پیسہ کمائیں گے۔

شوگر انڈسٹری کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے 1957 میں شوگر انڈسٹری کی ترقی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ اس طرح پہلی مل 1961 میں صوبہ سندھ کے شہر ٹنڈو محمد خان میں قائم ہوئی۔ 1962 تک ملک میں 6 ملیں تھیں اور 1964 میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) قائم ہو چکی تھی اور تقریباً ہر ایک شوگر مل ملک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پارلیمنٹ کا ایک رکن موجود تھا۔

شوگر انڈسٹری کے مفادات کو پارلیمنٹ میں غیر متناسب نمائندگی دی گئی اور اس کے ساتھ آنے والی سیاسی سرپرستی نے اس صنعت کو فروغ دیا۔ ادھر ملوں کی تعداد 1971 تک بڑھ کر 20 تک پہنچ گئی۔ 9 سال بعد یعنی 1980 تک یہ تعداد 34 تک پہنچ گئی۔

لیکن اس وقت تک ملوں کو ایک مسئلہ درپیش تھا۔ پاکستان کے گنے کا کوئی مقابلہ نہی تھا۔ پیداوار عالمی اوسط پیداوار کے مقابلے میں کم تھی اور اسی طرح چینی نکالنے کا فیصد بھی  کم تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ درآمد شدہ چینی دراصل مقامی مصنوعات کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی پالیسیوں نے درآمدی چینی پر ٹیرف لگا دیا اور یہاں تک کہ مقامی شوگر ملوں کو سبسڈی دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی۔ نتیجے کے طور پر، ملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسی طرح گنا اگانے والے کسانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔

درحقیقت، ملوں کی تعداد اس شرح سے بڑھی کہ آخر کار صلاحیت کو بڑھانے کے مسائل کی وجہ سے حکومت کو لائسنس دینا بند کرنا پڑا۔ درآمدات پر ٹیرف اور نان ٹیرف پابندیوں اور فراخدلی سے سبسڈی کے ذریعے سیاسی سرپرستی اور تحفظ کے ذریعے پاکستان 1987 میں 41 ملوں سے 2000 کی دہائی کے وسط تک 91 تک چلا گیا۔

اس دور میں خاص طور پر شریف خاندان شوگر مل کے کاروبار میں داخل ہونے میں نمایاں رہا۔ انہوں نے رمضان شوگر ملز سے آغاز کیا اور اتفاق شوگر ملز سمیت بہت سی دیگر ملیں قائم کیں۔ تاہم ایک اہم فرق تھا۔ شروع میں مل مالکان میں سے بہت سے کسان بھی تھے۔ شریف صنعت کار تھے جن کے پورے خاندان میں ایک بھی کسان نہیں تھا۔ بہر حال ملک کی شوگر انڈسٹری میں سیاسی اثر و رسوخ داخل ہوتا رہا۔ جہاں تک منافع کی بات ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس دور میں  ایک شوگر مل کا سالانہ منافع اتنا زیادہ تھا کہ اس سے ایک نئی شوگر مل لگائی جا سکتی تھی۔

2000 کی دہائی کے اوائل تک نئی شوگر مل کے قیام پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ تاہم، 2005 کے قریب حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا کہ قانونی طور پر نئی ملیں قائم نہیں کی جا سکتیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آنے والی بہت سی ملیں مظفر گڑھ کے قریب جنوبی پنجاب میں لگائی جا رہی تھیں۔ یہ پاکستان کی کاٹن بیلٹ کا ایک بڑا حصہ تھا۔ جس پر ملک کا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ٹیکسٹائل بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ جنوبی پنجاب کی بہت سی ملیں اپنی ٹرف کی حفاظت کرنا چاہتی تھیں۔ اس وقت یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ وسطی پنجاب میں گنے کی پیداواراچھی نہیں ہو رہی۔ یہ خطہ پانی کی قلت کا شکار ہے اور گنے کی ایک ایسی فصل ہے جو جنوبی پنجاب کے لیے زیادہ موزوں ہے جس میں پانی کی بہتر تقسیم ہے۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں مشرف انتظامیہ کے دوران، جنوبی پنجاب کے بہت سے مل مالکان حکومت میں تھے اور اس لیے انہوں نے اس کے لیے لابنگ کی۔

2015 کے آخر تک، شہباز شریف  کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پر مضبوط گرفت تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب وسطی پنجاب کی پانچ ملیں جنوبی پنجاب منتقل ہوئیں۔ اتفاق شوگر ملز ساہیوال، حسیب وقاص شوگر ملز ننکانہ صاحب، عبداللہ (یوسف) شوگر ملز سرگودھا اور عبداللہ شوگر ملز دیپالپور مظفر گڑھ اور بہاولپور جیسے علاقوں میں منتقل ہو گئیں۔ تمام ملوں کا تعلق شریف خاندان سے تھا۔

جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز(جو جہانگیر ترین کی ملکیت ہے)  اور دیگر نے ملوں کی منتقلی کے خلاف درخواستیں دائر کر دیں۔ درخواست میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھی فریق بنایا گیا۔ پانچوں ملوں نے دعویٰ کیا کہ وہ جنوبی پنجاب میں نئی ​​ملیں نہیں لگا رہے ہیں بلکہ صرف موجودہ ملوں کو اس علاقے میں منتقل کر رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور دیگر نے اس خامی کا مذاق اڑایا اور دعویٰ کیا کہ یہ ایک نئی مل قائم کرنے کے مترادف ہے جس کی اجازت نہیں تھی۔

اکتوبر 2016 تک لاہور ہائی کورٹ کی اس وقت کی جسٹس عائشہ ملک نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریبی رشتہ داروں کو اپنی پانچ شوگر ملوں کو نئی جگہوں پر منتقل کرنے سے روک دیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ شریف خاندان نے پہلے ہی اپنی ملیں منتقل کر کے جنوبی اضلاع میں نئی ​​ملیں شروع کر دیں۔ اتفاق ملز بہاولپور، حسیب وقاص مظفر گڑھ اور چوہدری ملز رحیم یار خان شفٹ ہو گئے تھے۔

یہ تمام ملیں اب لگ چکی تھیں لیکن کام نہیں کر رہی تھیں۔ تو ان کے ساتھ کیا کرنا تھا؟ شریفوں نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تو کیس یہاں سے سپریم کورٹ میں چلا گیا۔ سپریم کورٹ نے 2018 میں ملوں کو فوری طور پر اپنے اصل مقام پر منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپیل کو بھی خارج کر دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے حسیب وقاص شوگر ملز لمیٹڈ، چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ اور اتفاق شوگر ملز کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت ختم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ‘ہمیں ان اپیلوں میں کوئی میرٹ نہیں ملا، نتیجتاً درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔’

2019 تک سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی اور ایسا لگ رہا تھا کہ ان نئی ملوں کی قسمت پر مہر ثبت ہو گئی ہے۔

فہرست میں شامل تمام شوگر ملوں میں سے، ان کی کاروباری پریشانیوں کا بہترین اندازہ حسیب وقاص سے لگایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ پبلک لسٹڈ کمپنی ہے۔ ان کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ مل کی حالت اور ان کی ملوں کے کام سے باہر ہونے کی وجہ سے ہونے والے بھاری نقصانات کا بیان کرتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  “یہ آپ کے بخوبی علم میں ہے کہ مذکورہ صورت حال ننکانہ سے ملوں کو علی پور مظفر گڑھ منتقل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔” “کمپنی کے مالیاتی بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال کے دوران، کمپنی کو 15 کروڑ روپے کا مجموعی نقصان اور 3 کروڑ روپے کا خالص نقصان ہوا اورکل 42 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ مزید یہ کہ موجودہ واجبات موجودہ اثاثوں سے 378 کروڑ روپے سے زیادہ ہیں۔

تاہم، ایک ہی وقت میں، رپورٹ امید افزا نظر آتی ہے، کارپوریٹ نقطہ نطر سے امید افزا۔ جس سے شاید اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ ملک میں سیاسی حقائق میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ جنگ ​​بندی بھی ہو سکتی ہے۔ “ہم آپ کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ ملوں کے موجودہ موجودہ مقام جو کہ مظفر گڑھ ہے، کے آپریشنز کے حوالے سے ایک مثبت منظر نامہ تیار کیا گیا ہے۔ حال ہی میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے “پنجاب انڈسٹریز (کنٹرول آن اسٹیبلشمنٹ اینڈ انلارجمنٹ) ترمیمی ایکٹ 2002 منظور کیا جو 11 نومبر 2022 کو گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد 14 نومبر 2022 کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے طور پر شائع ہوا۔” تو وہ کس چیز پر کھیل رہے تھے؟

ہم جانتے ہیں کہ 2016 میں بڑے مل مالکان اور شوگر کے تاجروں کے درمیان بعض ملوں کی جگہ اور ان کی منتقلی پر بڑا اختلاف پیدا ہوا۔ عدالتوں میں مقدمات چلے اور ملیں تنازعات کی زد میں رہیں۔

لیکن سیاست سے ہٹ کر شوگر مل کا کاروبار پاکستان کی زراعت کے لیے کتنا اچھا یا کتنا برا ہے؟ ایک طرف نقل مکانی پر اٹھائے گئے اہم مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ ملیں زیادہ کاٹن اگانے والے اضلاع میں منتقل ہو جائیں گی۔ تاہم، پچھلی دو دہائیوں میں، کپاس نے پسپائی اختیار کر لی ہے اور کسان زیادہ منافع بخش گنے کو اگانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کپاس کی طلب ختم ہو گئی ہے، بین الاقوامی سطح پر غیر مسابقتی ہو گئی ہے، اور پیداوار 2005 میں پیدا ہونے والی 1 کروڑ 40 لاکھ  گانٹھوں سے 2023 میں 49 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار سے 65 فیصد تک گر گئی ہے۔

کپاس پیدا کرنے والے دلچسپی کھو رہے ہیں اور وہ گنے اور دھان جیسی فصلوں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ حکومت کپاس کی بحالی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سندھ میں کپاس اگانے والے علاقوں میں شوگر انڈسٹری میں ترقی ہوئی ہے، خاص طور پر گھوٹکی میں، جہاں پانچ شوگر ملیں قائم کی گئی ہیں۔

پرافٹ کے ساتھ پہلے ایک انٹرویو میں، جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین نے بھی اتفاق کیا تھا کہ بہت سے کسان کپاس سے گنے کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے پیچھے یقیناً یہی وجہ ہے کہ گنا زیادہ منافع بخش ہے۔

علی ترین کہتے ہیں کہ “جب ہم نے اپنی مل لگائی تو رحیم یار خان کپاس کاشت کرنے والا علاقہ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ خطے میں گنے کی پیداوار کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اندر آئے اور کسانوں سے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ بہت سارے گنے سستے اگائیں اور ہمیں بلند نرخوں پر فروخت کریں۔ اس سے پہلے شوگر ملوں اور کسانوں کا رشتہ یہ تھا کہ ملیں کسانوں کو نچوڑ لیتی تھیں۔ آخر کار، کسان صرف گنے کی کاشت چھوڑ دیں گے۔ اور اسی وجہ سے ہم نے نقد قرضے فراہم کیے، ہم نے بیج دیا، ہم نے تربیت حاصل کی اور گنے کی پیداوار کبھی زیادہ نہیں رہی۔”

یہ ایک اور مسئلہ ہے۔ اگرچہ وسطی پنجاب میں پانی کی کمی ایک مسئلہ ہے، وہاں کی بہت سی ملوں نے کسانوں میں بھی بری شہرت حاصل کی تھی۔ موخر ادائیگی دراصل کسانوں اور مل مالکان کے درمیان تنازع کی ایک بڑی وجہ بن گئی۔

لیکن عام طور پر گنا کپاس کے مقابلے میں زیادہ محفوظ فصل ہے۔ پھر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گنے کو ایک ‘بہتر’ متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اتار چڑھاؤ والے موسم کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط ہے، بلکہ اسے کھیتوں میں کم افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ شوگر انڈسٹری کو سیاسی اشرافیہ اور بااثر زمیندار خاندانوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے اور اسی وجہ سے وہ سازگار پالیسیاں حاصل کرنے کے قابل ہے۔

اور یہیں سے ہم سیاست میں واپس آتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ نے شریف ملز کی جانب سے نظرثانی کی درخواست مسترد کر دی تو ایسا لگتا تھا کہ یہ ‘گیم سیٹ میچ’ کا معاملہ ہے۔ ملوں کو اب اپنے اصل مقامات پر واپس جانا پڑے گا اور نئی عمارتوں کو کسی اور کاروبار کے لیے تبدیل کرنا پڑے گا۔

لیکن شریف خاندان اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نہیں تھے۔

2021 کے وسط میں، سپریم کورٹ سے حتمی انکار ملنے کے ایک سال بعد ملوں نے دوبارہ کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اتفاق ملز کو بہاولپور منتقل کرنے کے لیے پنجاب انڈسٹریز (کنٹرول آن اسٹیبلشمنٹ اینڈ انلارجمنٹ) آرڈیننس 1963 کے سیکشن 3 کے تحت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل آف انڈسٹریز کے سامنے درخواست دائر کی۔ اس بار وہ ایک مختلف دعوے کے ساتھ گئے، وہ یہ کہ وہ مل کی منتقلی نہیں  بلکہ ایک “نئی” مل قائم کرنا چاہتے ہیں۔

نئی ملوں کے قیام کی اجازت نہ ہونے کے باوجود 2016 میں جب منتقلی کا معاملہ سامنے آیا تو اس اصول کو تبدیل کر دیا گیا۔ جبکہ تبدیلی کو سپریم کورٹ نے پہلے ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا، شریف خاندان نے کہا کہ منتقلی کے بجائے وہ صرف جنوبی پنجاب میں نئی ​​ملیں لگانا چاہتے ہیں۔ یقیناً اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور عثمان بزدار وزیراعلیٰ تھے۔ پنجاب حکومت نے فوری طور پر ڈی جی آف انڈسٹریز کے پاس اس معاملے پر سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست مسترد کر دی لیکن یہ بالکل وہی آغاز تھا جس کی شریف خاندان کو ضرورت تھی۔

اکتوبر 2021 میں شریف خاندان ڈی جی کے فیصلے کے خلاف دوبارہ لاہور ہائی کورٹ چلا گیا جس نے اتفاق شوگر ملز کی درخواست کی اجازت دی اور ڈائریکٹر جنرل (انڈسٹریز) کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں اسے ملز کے کیس کوایک نیا یونٹ قائم کرنے کیلئے مزید کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی۔

عدالتوں میں کیس کامیابی سے واپس آ گیا۔ پنجاب حکومت بھی اس دوسری کوشش کو ناکام بنانا چاہتی تھی اور براہ راست سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دینے کے لیے سپریم کورٹ گئی کہ یہ سپریم کورٹ کے اصل 2019 کے حکم کے خلاف ہے۔ یہ معاملہ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ میں ہے اور پنجاب حکومت نے جوابی وار کیا۔ اور ساتھ ہی چیزیں بھی بدلنا شروع ہوئیں۔

نومبر 2021 میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت  کے کیس کی سماعت شروع کی ۔ یہ کیس جولائی 2022 تک کچھ دیر کے لیے عدالت میں چلا۔ یہ تقریباً  وہی وقت تھا جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

30 اپریل 2022 کو حمزہ شہباز تھوڑی مدت کیلِئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ حکومتیں اچانک شریف خاندان کے ہاتھ میں آ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ پیپلز پارٹی کی پشت پناہی سے اقتدار میں آئے تھے جس کا مطلب تھا کہ ذکاء اشرف جیسے رہنما بھی اب شریف خاندان کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین نے بھی نہ صرف کھل کر علیحدگی اختیار کی بلکہ پنجاب اسمبلی میں اپنے دھڑے کو بھی شریف خاندان کے ساتھ ملا دیا۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی نئی سیاسی جماعت آئی پی پی کا بھی اعلان کیا ہے۔

لیکن اس موقع پر کچھ اور بھی دلچسپ ہوا۔

27 جولائی 2023 کو، حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بمشکل تین ماہ بعد، ان کے انتخاب کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور پرویز الٰہی کو اقتدار میں لانے کے لیے نئے انتخابات کرائے گئے۔ پرویزالٰہی نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت شریف خاندان کے سخت دشمن تھے اس لیے ان سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے 2019 کے حکم کو روکنے کی ان کی کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ لیکن پرویزالٰہی خود چینی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور چوہدری خاندان کی وسطی پنجاب میں متعدد شوگر ملیں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں شوگر ملوں کی توسیع کی اجازت دینا بھی ان کے مفاد میں تھا۔ نومبر 2022 میں، پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے سے چند ہفتے قبل پرویزالٰہی کی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے شوگر ملوں کی منتقلی اور توسیع کی اجازت دے دی۔

یہ شریف خاندان کے لیے نیک شگون تھا۔ اس کے جلد بعد محسن نقوی نے نگراں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ پنجاب حکومت کے لیے سپریم کورٹ میں اپنا کیس واپس لینے کے لیے چیزیں طے ہو گئیں۔

رواں سال 11 فروری کو سپریم کورٹ نے شوگر ملز کی کاٹن ایریاز میں منتقلی کے خلاف دائر درخواستوں کی مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے شوگر ملز کے قیام اور منتقلی کی اجازت کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت پنجاب حکومت نے عدالت سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔ سپریم کورٹ نے شوگر ملز کے خلاف کیس واپس لینے پر پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔

خلاصہ یہ کہ شریف خاندان ایک نیا قانونی نکتہ اٹھانے کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ گیا اور انہیں درخواست کی اجازت دے دی گئی۔ اس کی مخالفت کے لیے پی ٹی آئی پنجاب حکومت سپریم کورٹ گئی۔ اب، حکومت کے مختلف کنٹرول کے بعد، اس نے سپریم کورٹ میں پہلے دائر کی گئی درخواست کو واپس لے لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے شوگر ملز کے خلاف نیا کیس واپس لینے پر پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ صوبائی حکومت کیس کیوں واپس لینا چاہتی ہے؟ محکمہ صنعت و تجارت پنجاب کے نمائندے نے جواب دیا کہ شوگر ملز کی منتقلی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے کیونکہ ملوں کو اجازت دے دی گئی ہے۔

اس اجازت کو اب منتقلی کی بجائے “نئی” مل کے لیے اجازت کا لیبل لگا دیا گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ سپریم کورٹ کے پرانے حکم کی تکنیکی طور پر خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔ بنیادی طور پر، چیزیں اب واپس آ گئی ہیں جیسے وہ 2016 میں تھیں۔

اس سب میں زراعت کا سوال کہیں کھو گیا۔ کپاس کی فصل کا کیا ہوگا؟ پاکستان کے پانی کی قلت کے مسئلے کے لیے گنے کی فصل کتنی بری ہے؟ اور کیا شوگر انڈسٹری کو کبھی پولیٹیکل انجینئرنگ کے طوق سے رہائی ملے پائے گی؟

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here