آپ کا بجلی کا بل اتنا زیادہ کیوں آ رہا ہے؟ آئیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں

371

ہر ماہ بجلی کا بھاری بھر کم بل دیکھنا اذیت ناک لگتا ہے۔ شائد آپ پورا مہینہ کم بجلی استعمال کرنے کی تگ و دو کرتے رہے ہوں اور یونٹ بھی کم استعمال کیے ہوں۔ پھر بھی بل زیادہ آ جائے اور آپ کو پتہ ہی نہ ہو کہ اتنا زیادہ بل کیوں آ رہا ہے۔

بجلی کے بل میں مختلف کیٹیگریز کا مطلب کیا ہے اور آپ اپنا بل کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم نے اے آر وَن (AR-1) کیٹیگری کے گھریلو صارفین کے ٹیرف کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔

بجلی کا بل دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک حصے کی رقم ڈسٹری بیوشن کمپنی کو جاتی ہے اور دوسرے حصے کی حکومت کو۔

ان دونوں حصوں کا ٹیرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) مقرر کرتی ہے جبکہ یہ اتھارٹی حکومت کی تجویز پر ایک یکساں ٹیرف (uniform tariff) بھی مقرر کرتی ہے جس میں سرکاری سبسڈی بھی شامل ہوتی ہے اور جس کا مقصد ہوتا ہے کہ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی قیمت تقریباََ ایک جیسی ہو۔ بے شک ہر کمپنی کی بجلی کی لاگت مختلف ہو۔

نیپرا نے حال ہی میں بجلی کی قیمت میں ساڑھے 7 روپے فی یونٹ اضافہ کیا ہے جو یکم جولائی 2023ء سے نافذالعمل ہے۔

صارفین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلی: محفوظ (Protected Lifeline)

دوسری: محفوظ (Protected)

تیسری: غیر محفوظ

چوتھی: جن صارفین کے پاس ’’ٹائم آف یوز‘‘ (ٹی او یو) میٹر موجود ہیں۔

ایک کلو واٹ فی گھنٹہ کے منظور شدہ لوڈ کے ساتھ سنگل فیز کنکشن رکھنے والے وہ رہائشی صارفین جنہوں نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران 100 سے کم یونٹ استعمال کیے ہوں وہ لائف لائن کنزیومر ہیں، بشمول نان ٹائم آف یوز صارفین۔ آپ اپنے بل پر منظور شدہ لوڈ دیکھ سکتے ہیں۔

لگاتار چھ ماہ تک 200 تک یونٹ استعمال کرنے والے صارفین محفوظ (protected) کیٹیگری میں شامل ہیں۔ تاہم اگر کسی مہینے یونٹ 200 سے بڑھ جائیں اور تسلسل ٹوٹ جائے تو یہ صارفین بھی غیر محفوظ (unprotected) کیٹیگری میں چلے جاتے ہیں۔

کچھ صارفین نے 5 کلو واٹ فی گھنٹہ یا زیادہ لوڈ منظور کروا رکھا ہوتا ہے اور ٹی او یو میٹر استعمال کرتے ہیں جنہیں ’’ویری ایبل ریٹ میٹر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے میٹر بجلی کے استعمال کے اعدادوشمار دو طرح دکھاتے ہیں۔

آف پِیک آور (off-peak hours)

اور آن پیک آور۔ (on-peak hours)

ایسے میٹر رکھنے والے صارفین کیلئے ٹیرف بھی مختلف ہوتا ہے۔

اگر آپ لگاتار ایک سال تک ماہانہ 50 یونٹ استعمال کریں تو نئے یکساں ٹیرف کی بنیاد پر آپ پر ٹیرف 3.95 روپے فی یونٹ لاگو ہو گا جبکہ 51 یونٹ سے 100 یونٹ تک تقریباََ پونے 8 روپے فی یونٹ۔ یوں آپ کو محفوظ کیٹیگری کے لائف لائن صارفین میں شمار کیا جائے گا۔

دوسری صورت میں مسلسل چھ ماہ تک 100 یونٹ استعمال کرنے پر پونے 8 روپے ٹیرف لاگو ہو گا جبکہ 101 یونٹ سے 200 یونٹ تک ٹیرف 10.06 روپے فی یونٹ تک چلا جائے گا۔ آپ دوسرے زمرے کے پروٹیکٹڈ صارف ہیں۔ اس کیٹیگری کے صارفین کیلئے تاحال ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا گیا۔

لیکن اگر آپ غیرمحفوظ (unprotected) کیٹیگری میں شامل ہیں یعنی مسلسل چھ ماہ تک آپ کے یونٹ 100 یا 200 یونٹ سے کم نہیں رہتے یا ویسے ہی آپ کا بجلی کا استعمال زیادہ ہے تو پھر آپ پر ٹیرف کچھ ہوں لاگو ہوگا۔

1 سے 100 یونٹ پر 16.48 روپے

101 سے 200 یونٹ پر 22.95 روپے

201 سے 300 یونٹ پر 27.14 روپے

301 سے 400 یونٹ پر 32.03 روپے

401 سے 500 یونٹ پر 35.24 روپے

501 سے 600 یونٹ پر 36.66 روپے

601 سے 700 یونٹ پر 37.8 روپے

700 یونٹ سے اوپر 42.72 روپے

غیرمحفوظ کیٹیگری میں شامل تمام صارفین کیلئے ٹیرف میں کم از کم 3 روپے اور زیادہ سے زیادہ ساڑھے 7 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔

ٹی او یو میٹر رکھنے والے صارفین کیلئے ساڑھے 7 روپے اضافے کے بعد آن پیک آورز ٹیرف 41.89 روپے فی یونٹ جبکہ آف پیک ٹیرف 35.57 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے)، فیول چارج ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) یا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) آتی ہے۔ بجلی کی اصل قیمت صارفین سے لی جانے والی قیمت سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ جیسا کہ عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ۔ ایسی صورت میں زائد لاگت صارفین کے بلوں میں شامل کرنے کیلئے ڈسٹری بیوشن کمپنی نیپرا کو درخواست دیتی ہے۔

مثال کے طور پر جولائی 2023ء کے بل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ سے مئی میں استعمال کردہ بجلی پر فی یونٹ ایک مخصوص رقم وصول کی گئی ہے۔ یاد رکھیں کہ کیو ٹی اے، ایف سی اے یا ایف پی اے تازہ ترین مہینے میں آپ کے یونٹس کے بجائے اُن یونٹس کیلئے چارج کیا جاتا ہے جنہیں آپ پچھلے مہینے یا سہ ماہی کے دوران استعمال کر چکے ہوں۔

بل میں آپ کچھ اضافی چارجز بھی دیکھیں گے۔ جیسا کہ فنانس کاسٹ (ایف سی) سرچارج یا کے الیکٹرک کے صارفین کیلئے پاور ہولڈنگ لمیٹڈ سرچارج وغیرہ۔ یہ رقم پاور سیکٹر کے قرضے ادا کرنے یا گردشی قرضہ میں کمی کیلئے وصول کی جاتی ہے۔

2009ء میں قائم ہونے والی پاور ہولڈنگ لمیٹڈ وزارت توانائی کی پاور ڈویژن کے ماتحت کمپنی ہے جس کا مقصد مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر پاور سیکٹر کی ادائیگیاں کرنا ہے۔

حکومت کے مطابق بجلی کی فروخت سے آمدن قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے ناکافی ہے، اس لیے نیپرا سے اضافی سرچارج لگانے کی درخواست کی گئی۔ نیپرا نے یکم مارچ سے 30 جون 2023ء تک ماہانہ 300 یونٹ استعمال کرنے والوں پر 43 پیسے فی یونٹ جبکہ اس سے زائد یونٹس پر 3.82 روپے فی یونٹ ایف سی سرچارج عائد کر رکھا تھا جو اَب بڑھا کر 1.43 فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔

اب تک کے تمام سرچارج ڈسٹری بیوشن کمپنی کی جیب میں جا رہے تھے۔

اس کے بعد وہ رقم آتی ہے جو آپ بجلی کے بل میں حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلی ہے الیکٹرسٹی ڈیوٹی۔ حکومت بجلی کی لاگت، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، ایف سی اے، ایف پی اے اور ڈسٹری بیوشن مارجن پر تقریباََ 1.5 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی وصول جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بجلی کی قیمت، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، فیول چارج ایڈجسٹمنٹ، ڈسٹری بیوشن مارجن، ڈیوٹی اور ایف سی سرچارج پر 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت ہر صارف سے پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے 35 روپے فیس وصول کرتی ہے جبکہ 15 روپے ریڈیو فیس عائد کرنے پر بھی غور کر رہی ہے جو ریڈیو پاکستان کے ملازمین کی تنخواہوں کیلئے استعمال ہو گی۔ تاہم اس حوالے سے کوئی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اگر آپ فائلر نہیں ہیں اور آپ کا نام فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) میں نہیں ہے تو آپ کو انکم ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے مطابق اگر آپ کا بجلی کا بل 25 ہزار روپے سے کم ہے تو آپ کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ تاہم اگر آپ کا بل 25 ہزار روپے سے زیادہ ہے تو آپ کو کل رقم کا 7.5 فیصد انکم ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

ٹیرف کی شرح میں حالیہ اضافے کے باوجود حکومت کا دعویٰ ہے کہ 63 فیصد گھریلو صارفین کے بجلی بلوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں ہو گی کیونکہ حکومت انہیں 158 ارب روپے سبسڈی کے ساتھ ساتھ زیادہ یونٹ استعمال کرنے والوں پر بوجھ ڈال کر کراس سبسڈی بھی دے رہی ہے۔

نیپرا میں نئے یکساں ٹیرف پر نظرثانی کی درخواست پر سماعت کے دوران پاور ڈویژن کے نمائندوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 98 فیصد صارفین کو اَب بھی مختلف طرح کی سبسڈی دی جائے گی۔

پاکستان کا پاور سیکٹر 2.65 کھرب روپے گردشی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایف سی سرچارج اسی گردشی قرضے کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر لگایا گیا تھا کیونکہ بڑھتے ہوئے گردشی قرضے سے توانائی کے پورے شعبے کی عمل داری کو خطرہ ہے۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یکساں ٹیرف میں اضافہ گردشی قرضے میں کمی کے بجائے بجلی چوروں کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے اور اس سے بجلی کی مجموعی کھپت بھی کم ہو سکتی ہے جس سے ملکی اقتصادی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔

ترجمہ: صدام حسین

نوٹ: اصل تحریر پرافٹ پر انگریزی میں شائع ہوئی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here