قدرتی وسائل کا استعمال: پاکستان کو ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہو گا!

250

پاکستان کے سب سے طاقتور لوگ اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں پہلی پاکستان منرل سمٹ کے موقع پر موجود تھے۔ ملک کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت، سائنسدان، ماہرین اور سرکردہ صنعتکار کان کنی اور قدرتی وسائل کے مرکز کے طور پر ملک کے پوٹینشل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے موجود تھے۔

تقریب میں مقررین کا دعویٰ تھا کہ اپنے وسیع اورغیر دریافت شدہ ذخائر کے ساتھ پاکستان ممکنہ طور پر 6 ٹریلین ڈالر مالیت کے قدرتی وسائل کا حامل ہے۔

معدنیات کی سربراہی کانفرنس بعنوان “ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ: پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع” پاکستان کی سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) اور کینیڈا میں قائم بیرک گولڈ کارپوریشن کی مشترکہ کوشش تھی جسے پاکستان کی وزارت پیٹرولیم کا تعاون حاصل تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سربراہی اجلاس کے اہم اجلاسوں سے خطاب کیا۔

اس تقریب کو خاص طور پر سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے تقویت بخشی جو افتتاحی سمٹ میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچا تھا۔ سعودی نائب وزیر برائے امور کان کنی انجینئر خالد بن صالح المدیفر کی قیادت میں وفد میں سعودی کان کنی کمپنیوں معدن اور منارا معدنیات کے نمائندے بھی شامل تھے۔ سعودی عرب اس وقت معدنی مصنوعات کا دنیا کا چوتھا بڑا خالص درآمد کنندہ ہے۔

درحقیقت اس طرح کے منصوبوں اور اقدامات کے ساتھ پوری صلاحیت شاذ و نادر ہی کھلتی ہے اور یہاں تک کہ جو کچھ عام طور پر ہوتا ہے اسے دریافت کرنے میں کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ ماضی میں کچھ کامیابیاں ہوئیں اور دوسری بار حقیقی معنوں میں سنہری مواقع شرمناک طور پر ضائع کردیئے گئے۔

شاید اسی وجہ سے کانفرنس میں سب سے زیادہ دلچسپ تقریر اینگرو کے سی ای او غیاث خان نے تیار کی تھی، جنہوں نے ایسے مواقع کو گنوانے سے بچانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت ہم کسی اور سے زیادہ اینگرو اور اس کے سی ای او پر تبصرہ کریں گے کیونکہ وہ قدرتی وسائل سے متعلق پاکستان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک کے مرکز میں رہے ہیں یعنی تھر کول۔

غیاث خان نے تقریب کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا کہ “تھر پاکستان کی 10فیصد بجلی پیدا کرتا ہے اور درآمدات میں سالانہ 1 ارب ڈالر بچاتا ہے۔ اس کی سماجی و اقتصادی کامیابی اس بات کا خاکہ فراہم کرتی ہے کہ پاکستان کی 6 ٹریلین ڈالر کی کان کنی کی صلاحیت سے مستفید کیسے ہواجائے۔” ان کا کہنا ہے کہ یہ نجی شعبہ تھا جس نے تھر کی ترقی کی قیادت کی۔ تھر کی مثال ہمیں اس طرح کا خاکہ فراہم کرتی ہے:

1۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈلز کی طاقت

2۔ دوررس نتائج کی خاطر سرمایہ ضروری ہے۔

3۔ قومی مفاد کے منصوبوں کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے۔

4۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت معدنی کان کنی کی کامیابی اور مقامی علاقوں کی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایسے منصوبے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

تھر کا کوئلہ درحقیقت قدرتی وسائل کے انتظام اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ایک اچھی، گھریلو مثال ہے۔ پھر ایک بار پھر پاکستان کے پاس اپنے قدرتی وسائل کو منظم نہ کرنے کی ایک روشن مثال بھی ہے یعنی ریکوڈک۔ نئے قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر کی دریافت سے پاکستان ممکنہ طور پر اپنی تقدیر بدلنے کے لیے تیار ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اس میں دلچسپی لیں گے اور اس کی مالیت 6 ٹریلین ڈالر نہ ہونے کے باوجود پاکستان اسے برآمدات اور آمدنی کا بڑا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں اور کامیابیوں دونوں سے سیکھنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ پاکستان میں جو بھی پوٹینشل موجود ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔

پاکستان بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمد شدہ ایندھن کے ذرائع جیسے کہ قدرتی گیس (RLNG) پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ جب بھی کوئی بین الاقوامی بحران ہوتا ہے جیسا کہ روس یوکرین جنگ، تو پاکستان کا توانائی کا شعبہ اس کی شدید لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اس کا ایک آسان حل ہے۔ سستا ایندھن یعنی کوئلہ جیسی چیز، جوکہ یہاں موجود  ہے۔ وسیع رقبے پر محیط تھر کے کوئلے کے ذخائر دنیا میں لگنائٹ کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں، ایک اندازے کے مطابق یہ 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ  یہ کوئلہ پاکستان کی توانائی کے مسائل کو دہائیوں نہیں بلکہ آنے والی صدیوں تک حل کر سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ بھرپور قدرتی ذخیرہ دستیاب ہے تو پہلے استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ جیالوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) کے ذریعہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں دریافت کیے گئے تھر کول کا بجلی کی پیداوار میں حصہ تقریباً 2000 میگاواٹ ہے۔

مختصراً، تھر کول توانائی کا ایک سستا، متبادل، مقامی ذریعہ پیش کرتا ہے جسے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور پاکستان کو اپنی توانائی کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی منڈیوں پر انحصار کرنے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سی ای اوعامراقبال نے اس سے قبل پرافٹ کے ساتھ انٹرویومیں کہا تھا کہ ” تھر کول کے کل ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مشترکہ تیل کے ذخائر سے زیادہ ہیں۔ یہ ذخائر پاکستان کے گیس کے مجموعی ذخائر سے تقریباً 68 گنا زیادہ ہیں ۔۔۔ تھر کول 200 سال تک تقریباً 1 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو پاکستان کو توانائی کے شعبے میں خود کفیل بنانے کے لیے کافی ہے۔‘‘

اینگرو مائننگ کے باس عامر اقبال کہتے ہیں کہ “حالیہ عالمی سپلائی چین میں رکاوٹوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کس طرح پاکستان کا درآمدی ایندھن پر انحصار اس کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔۔۔۔ ملک کے انرجی مکس کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں مزید مقامی ذرائع جیسے تھر کول کو شامل کیا جائے۔ اس سے زرمبادلہ کے قیمتی ذخائر بچ جائیں گے اور پاکستان کو پائیدار توانائی کی حفاظت کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔”

عامر اقبال مزید بتاتے ہیں کہ  تھر کے کوئلے کی توسیع سے تقریباً 2.5 ارب امریکی ڈالر کی بچت کے ساتھ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی بہت بڑا ریلیف مل سکتا ہے، جبکہ اس کے نتیجے میں سالانہ بنیادوں پر گردشی قرضے میں 100 ارب روپے سے زیادہ کی کمی واقع ہو گی۔

پہلے ہی تھر کول کو کراچی کی بجلی کے بہت سے مسائل کا حل بھی کہا جا رہا ہے۔ کے الیکٹرک کے نئے مالکان نے کہا ہے کہ سستی بجلی کے لیے اگلے پانچ سالوں میں 3.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ سرمایہ کاری کراچی کے شہریوں کے لیے سستی بجلی کو یقینی بنانے کے لیے ہوا، کوئلے اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلے مرحلے میں جامشورو میں واقع پاور پلانٹ کو درآمدی کوئلے سے تھر کول پر منتقل کیا جائے گا کیونکہ جامشورو کول پاور پلانٹ کی پیداوار درآمدی کوئلے کی عدم دستیابی کے باعث بند کردی گئی ہے۔

ابھی تک اینگرو کے پلانٹ کے علاوہ ملک کے تمام کول پاور پلانٹس درآمدی کوئلے پر انحصار کرتے ہیں۔ تھر کے کوئلے کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان مقامی طور پر بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ سب صرف اس لیے ممکن ہوا کہ اس موقع پر تھر کے کوئلے کو سرکاری طور پر بے جا تاخیر یا عدالتی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کا ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ تھر کول سی پیک منصوبے کا حصہ تھا اور اس طرح حکومت اپنے بہترین رویے پر چل رہی تھی۔

ریکوڈک، جس کا  بلوچی زبان میں مطلب ریتلی چوٹی ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ ارضیاتی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ضلع چاغی ٹیتھیان میگمیٹک آرک نامی پٹی کا حصہ ہے جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ آرک نایاب زمینی دھاتوں کا ایک مشہور ذخیرہ ہے، اور پاکستان کا حصہ چاغی اور شمالی وزیرستان کے درمیانی علاقے کے نیچے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریکوڈک کے پاس ایک اندازے کے مطابق 5.9 ارب ٹن معدنی وسائل ہیں، جس میں اوسطاً 0.41 فیصد کاپر گریڈ اور 0.22 گرام فی ٹن گولڈ گریڈ ہے۔

کل 5.9 ارب ٹن ایسک میں سے صرف 2.2 ارب ٹن اقتصادی طور پر نکالا جا سکتا ہے۔ ریکوڈک کانوں کا کل رقبہ 13 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا بتایا جاتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو سامنے رکحا جائے تو خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تانبے اور سونے کے دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ رکھتا ہے۔ یہ وسائل اصل میں 1993 میں ایک آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی بلیٹن (BHP Billiton) نے اس وقت کے نگراں وزیراعلیٰ نصیر مینگل کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد تلاش کیے تھے۔

کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک سنہری موقع تھا لیکن اگلی دو دہائیوں میں ریکوڈک کو تلاش کرنے والے ہاتھ بدلتے رہے۔ یہ پہلی بدقسمتی تھی۔ اپریل 2000 میں بی ایچ پی نے اپنا تحقیقی کام معطل کر دیا اور اپنی ذمہ داریاں ایک اور آسٹریلوی کمپنی منکور ریسورسز (Mincor Resources) کے حوالے کر دیں۔ 2006 میں منکور کوٹی سی سی نے حاصل کیا تھا جومنکور کی ذیلی کمپنی ہے اور کینیڈین-اسرائیلی ملکیت والے Barrick Gold اور Antofagasta of Chile کے درمیان مشترکہ منصوبہ ہے۔ اسی سال CHEJVA کی قانونی حیثیت کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

اس سارے عمل کے دوران حکومت نے ان ٹرانسفرز کے خلاف مزاحمت نہیں کی، جسے حکومت کی نا اہلی گردانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس معاملے پر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات دائر کیے گئے۔ مختصر یہ کہ یہ سارا معاملہ ایک قانونی دلدل بن گیا جس کے کوئی قریب بھی پھٹکنا نہیں چاہتا تھا۔

2012 میں ٹی سی سی اس معاملے کو انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID) کے پاس لے گیا تاکہ حکومت بلوچستان کی جانب سے کمپنی کی جانب سے لیزنگ کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد 11.43 ارب کے ہرجانے کا معاوضہ طلب کرے۔ جولائی 2017 میں ICSID نے یہ اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا کہ CHEJVA میں کوئی غلط کام نہیں ہوا۔ جس بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدہ ختم کر دیا تھا۔ بالآخر ٹریبونل نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔

اس نے پاکستان کو مکمل جکڑ لیا تھا۔ 2022 تک ان میں سے کچھ معاملات طے پا چکے تھے۔ درحقیقت، سپریم کورٹ آف پاکستان سے ایک سازگار فیصلہ ملنے کے بعد، بیرک گولڈ نے یہاں تک کہ سائٹ پر دوبارہ کام کرنے کے لیے ارادہ ظاہر کیا۔

عارف حبیب لمیٹڈ کی ایک رپورٹ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس پراجیکٹ کا دائرہ کار کافی وسیع اور آمدن بہت زیادہ ہے۔ اس منصوبے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کی کل متوقع سرمایہ کاری لاگت 7 ارب ڈالر ہے۔ پہلے مرحلے کے لیے 4 ارب ڈالر اور دوسرے مرحلے کے لیے 3 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پہلے دس سالوں میں تانبے کی سالانہ پیداوار 650 اور 700 ملین پاؤنڈ سالانہ کے درمیان ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے، مرحلہ 2 مکمل ہونے پر 800 سے 850 ملین پاؤنڈ سالانہ تک بڑھ جائے گی۔ مزید برآں، سونے کی پیداوار4 لاکھ 50 ہزار سے 5 لاکھ اونس تک بڑھنے سے پہلے پہلے دس سالوں (پہلے مرحلے) کے لیے سالانہ بنیادوں پر3 لاکھ سے ساڑھے 3 لاکھ اونس ہونے کا تخمینہ ہے۔

پراجیکٹ کی مجموعی قیمت کا اندازہ لگانے کے لیے پچھلے دس سالوں کے دوران اشیاء کی اوسط قیمت کو لے کر ہم سونے اور تانبے دونوں کی قیمتوں کا مستقل تعین کریں گے۔ اگر ہم اوپر دیے گئے نمبروں کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف اس منصوبے کے پہلے مرحلے کو دیکھیں تو اس سے حکومت کے لیے صرف ابتدائی 10 سالوں میں 14 ارب ڈالر کا تخمینہ ہوگا۔ آمدنی کے اہم حصے پر کاپر کی فروخت کا غلبہ ہوگا۔

اسی طرح، دوسرے مرحلے کے لیے تصور کی گئی توسیع کے ساتھ کان کی پیداوار میں اضافہ ہوگا، اور اس کے ساتھ حاصل ہونے والی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ دوسرے مرحلے کے دوران 62 ارب ڈالر کی جمع شدہ آمدنی متوقع ہے جس کی مدت مقررہ 35 سال ہے۔

اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان پہلے مرحلے کے دوران سالانہ اوسطاً 1.4 ارب ڈالر اور اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کے دوران اگلے 35 سالوں میں مزید 1.7 ارب ڈالر کمانے کے قابل ہو گی۔ یہ اگلے 45 سے50 سالوں میں مجموعی طور پر 76 ارب ڈالر کی رقم ہوگی۔ اگرچہ یہ تخمینے اور حسابات ریکوڈک کے ذریعہ متوقع مانیٹری ریٹرن کی ایک سادہ سی تفہیم فراہم کرتے ہیں، تاہم یہ ابھی بھی تخمینہ ہیں۔

اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ حکومت پاکستان نے سب سے پہلے 90 کی دہائی کے اوائل میں ریکوڈک کی تلاش شروع کی تھی۔ اس کے بعد تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے کچھ پیش رفت نہیں ہوئی۔ ریکوڈک کے ساتھ اب جب کہ 30 سال سے زیادہ کی قانونی لڑائیوں کی گرد کچھ بیٹھ چکی ہے، مگر بے شمار مسائل موجود ہیں۔ ایک اہم تشویش جس پر ابھی بھی توجہ کی ضرورت ہے وہ اس میگا پروجیکٹ کا لاجسٹک پہلو ہے، پراجیکٹ سائٹ کے دور دراز ہونے کو دیکھتے ہوئے، اور اس کے نتیجے میں اس کو قابل عمل پراجیکٹ بنانے کے لیے درکار لاجسٹکس کو مزید تیار کرنا ہوگا۔

چاغی میں واقع سیندک چاندی کی کان کی مثال ہی کو لیجیے، کان سے نکالے جانے والی چاندی کے دھات کو ٹرکوں کے ذریعے 1,127 کلومیٹر کے فاصلے سے کراچی کی بندرگاہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ بالکل مضحکہ خیز ہے، کیونکہ ٹرکوں کے استعمال سے منسلک اخراجات منصوبے کی نچلی لائن اور مجموعی فزیبلٹی پر منفی اثرات مرتب کریں گے۔ اگر ایسا ہی منصوبہ ریکوڈک کے لیے سوچا جارہا ہے تو بیرک اور حکومت کا مارجن نمایاں طور پر کم ہو جائے گا۔

اکتوبر 2007 میں Behre Dolbear کی طرف سے شائع ہونے والی ریکوڈک  سے متعلق رسک اسسمنٹ رپورٹ میں پانی کو پراجیکٹ کے “انتہائی نازک” مسئلے کے طور پر اجاگر کیا گیا تھا، اور پاکستان نے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی فزیبلٹی کا جائزہ لیتے ہوئے ICSID کی سماعتوں کے دوران اس پر روشنی ڈالی تھی۔

قدرتی طور پر سائٹ کے محل وقوع کے دور دراز ہونے کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور کان کنی کے کاموں کے لیے اگلے 45 سالوں کے لیے پانی کے پائیدار ذرائع کی تعمیر ایک یادگار چیلنج ہے۔

اور پھر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تاریخی طور پر پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب فیصلہ سازوں اور مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے بدعنوانی، نااہلی کے ساتھ ساتھ حماقتوں کے گواہ رہے ہیں۔ سرکاری عہدوں پر فائز بیوروکریٹس اور سیاست دان اس طرح کے منصوبوں سے اپنی کک بیک لازمی حاصل کرکے چھوڑتے ہیں۔

اب لگ رہا ہے کہ ملک کی قیادت پاکستان میں معدنیات کی کان کنی کے پوٹینشل پر متحد نظر آتی ہے۔ اپنے خطاب کے دوران آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک کی معدنی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ 6 ٹریلین ڈالر مالیت کے قدرتی ذخائر کی صلاحیت کا ادراک کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

ان کا کہنا تھاکہ غیر ملکی سرمایہ کار کانوں اور معدنی منصوبوں کا ایک لازمی حصہ ہوں گے، اور ان کی سرمایہ کاری اس سال جون میں قائم کردہ SIFC کے تحت محفوظ ہو گی تاکہ ممکنہ سرمایہ کاروں کو سنگل ونڈو آپریشنز کی پیشکش کی جا سکے۔ جنرل عاصم منیر نے  کاروبار کرنے میں آسانی کو یقینی بنانے اور غیر ضروری تاخیر کو کم کرنے کا وعدہ کیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اس امید کا اظہار کیا کہ SIFC جیسے اقدامات امید کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں جس سے پاکستان عالمی معیشت میں اپنی شناخت بنانے کے قابل ہو گا۔ انہوں نے ملک کی قسمت بدلنے اور معاشی خوشحالی اور ترقی کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ “ہمیں ایک بہتر مستقبل کے لیے ایک مضبوط بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی معدنی دولت ہمارے لیے عالمی معیشت میں اپنی شناخت بنانے کا بہترین موقع ہے۔ SIFC ایک بہترین قدم ہے جس سے پاکستان کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔”

لیکن یہاں تک کہ سب سے زیادہ مؤثر طریقے سے منظم قدرتی وسائل کے منصوبے کو شروع ہونے اور ادائیگی شروع کرنے میں سالوں لگ سکتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں حکومت کی ایک ناقابل اعتبار کاروباری شراکت دار ہونے کی طویل تاریخ کا اضافی سامان موجود ہے۔ ریکوڈک کے معاملے میں، دہائیوں بعد اب ہم شروع کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ دوسری طرف تھر کول قدرتی وسائل کی تلاش کا ایک منصوبہ ثابت ہوا ہے جو نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔ پاکستان مستقبل کے لیے کون سا راستہ اختیار کرتا ہے اس سے بہت کچھ متعین ہو گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here