سٹیٹ بینک کتنا آزاد ہے؟  کیا اَب بھی وزارت خزانہ کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے؟

215

لاہور: مئی میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس میں راقم الحروف کی سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی ایک اعلیٰ عہدیدار سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات قطعاََ سرکاری تکلفات سے پاک تھی کیونکہ تقریب عوامی نہیں تھی۔ مرکزی بینک کی پالیسی کے حوالے سے برسوں کے تجربے کا حامل ممتاز پیشہ ور وہاں ایک پینل کو موڈریٹ کر رہا تھا۔ ہماری گفتگو چائے کے وقفے میں ہوئی۔

خوشگوار، شائستہ جملوں کے تبادلے کے بعد واقعی صرف ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا کیا ہوا؟

“خود مختاری اب بھی قانونی اور آئینی طور پر موجود ہے۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ آپ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔” انہوں نے لبوں پہ ہلکی مسکراہٹ سجائے جواب دیا۔

معاملے کی حقیقت واضح تھی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ترمیمی بل 2021 میں اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ سٹیٹ بینک خود مختار ہے اور افراط زر کے ہدف کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ اس وقت سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر تھے جنہوں نے مرکزی بینک کی وزارت خزانہ سے آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی۔ لیکن فروری 2022 میں بل پاس ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری مختصر مدت کے لیے رہ گئی ہے۔ اگست 2022 میں جب رضا باقر کی مدت بطور گورنر ختم ہوئی تو عمران خان حکومت کو، جس نے سٹیٹ بینک خود مختاری کا بل منظور کیا تھا، عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کر دیا گیا تھا اور شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت برسر اقتدار آ چکی تھی۔

اور پھر جمیل احمد سٹیٹ بینک کے گورنر بن  گئے۔ بطور گورنر جمیل احمد کے دور میں مرکزی بینک کا کام کئی دہائیوں پہلے والے جمود پر چلا گیا- یعنی بینک کو وزارت خزانہ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی کانفرنس میں سٹیٹ بینک کے ممبر سے یہی سوال پوچھا جا رہا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ہر کسی کا انتطامی انداز مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ کسی حد تک نگرانی میں ہی بہتر کام کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ عین اس وقت جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ڈاکٹر عشرت حسین کا گزر ہوا۔ بغیر رکے یا ہماری طرف دیکھے، انہوں نے بس اپنی انگلی کا اشارہ کیا اور کہا ’’یہاں خود مختاری کے سوال پر خود کو چھوٹا نہ کریں۔‘‘ اور آگے چل دیے۔

یہ کسی بھی چیز سے بڑھ کر، سٹیٹ بینک خود مختاری بل 2021 کی حقیقت کا خلاصہ کرتا ہے جو مہینوں تک دھواں دھار بحث کا موضوع رہا۔ اس کی منظوری کے باوجود اس کا نفاذ عملی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور سخت جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی خود مختاری کا کوئی بھی دعویٰ جوابھی بھی عملی طور پر موجود ہے وہ ہمارے ساتھ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔

سن 2022 کے شروع میں سٹیٹ بینک کی خودمختاری پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ گرما گرم موضوع تھا۔ وجہ بڑی سادہ تھی۔ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ ایک ایسا بل منظور کیا جائے جو سٹیٹ بینک کو خود مختار بنائے اور اسے مانیٹری اور ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کا انتظام کرنے کا اختیار دے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ “عالمی سطح پر اکثریت کا خیال ہے کہ مرکزی بینکوں کو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہونا چاہیے لیکن ان کے درمیان کام کے حوالے سے کوآرڈینیشن قائم رہے۔ چونکہ خراب مانیٹری اور ایکسچینج ریٹ پالیسیاں مالیاتی کفایت شعاری سے کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ نقصان کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے وہ ایک آزاد مرکزی بینک کے ساتھ زیادہ محفوظ رہتے ہیں جو بنیادی طور پر افراط زر پر مرکوز ہے۔‘‘  بل کی منظوری ان ابتدائی نکات میں سے ایک تھی جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ چاہے اسے بہت ہلکے سے کہیں مگر سٹیٹ بینک کے قانون میں نئی ​​ترامیم نے سٹیٹ بینک کے گورنر کو ریاست سے الگ خود مختار بنا دیا جو ان کو جوابدہ بھی نہیں۔ گورنر کو صرف ان کی تقرری کا انتظار کرنا ہوگا جس کے بعد یہ گورنر اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کو مانیٹری پالیسی کا تعین کرنا ہوگا۔

اس وقت اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تحفظات کا بلند آواز میں اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی “معاشی خودمختاری” پر سمجھوتہ ہے اور سٹیٹ بینک کو کلیدی اقتصادی فیصلے آزادانہ طور پر لینے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی بری چیز ہو۔ مانیٹری پالیسی کو اصولی طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں یہ عام آبادی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔

مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کی جانب سے رقم کی فراہمی پر سخت خود مختار کنٹرول بھی حکومت کو ایس بی پی کو کنٹرول سے باہر اخراجات کے لیے استعمال کرنے سے روکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک خود مختار سٹیٹ بینک جو وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے معیشت کے پیشہ ورانہ انتظام کے لیے اچھا ہے۔ اور 2022 میں کچھ مہینوں تک ایسا لگتا تھا کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ پھر اس میں سیاست کی دخل اندازی ہوئی ۔

سٹیٹ بینک خود مختاری بل 2021 اب بھی قانون ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے تحت موجودہ گورنر جمیل احمد ریاست سے آزاد ہیں اور سود کی شرح سمیت مانیٹری پالیسی ان کی اور بینک کی (مانیٹری پالیسی کمیٹی) ایم پی سی کی صوابدید پر مقرر کی جا سکتی ہے۔ ان کے دور حکومت کے پہلے سال میں جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

ان کے انچارج ہونے کے مہینوں میں، گورنر ایک بار بھی موجودہ حکومت سے باہر نہیں نکلا۔ درحقیقت جب آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے پر ابھی بات چیت ہو رہی تھی انہوں نے آئی ایم ایف کی ضروریات کے مطابق شرح سود کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ایم پی سی کا ہنگامی اجلاس بلایا جو کہ حکومت کے مفاد میں تھا۔

گورنر باقر رضا کی ٹیم کے ایک سابق اعلیٰ رکن کا کہنا ہے کہ “باقر رضا کے بعد سٹیٹ بینک کا ماحول راتوں رات بدل گیا۔ میں اس کے فوراً بعد میں چلا گیا لیکن آپ بتا سکتے ہیں کہ نئے گورنر نہ صرف وزارت خزانہ کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے بلکہ درحقیقت وزارت سے ہدایت لے رہے تھے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ خود مختاری بل کی منظوری سے پہلے یہ پرانے نظام میں واپس آ گیا تھا۔”

واجب الادا کریڈٹ یقیناً دیا جانا چاہیے۔ گورنر جمیل احمد نے ایک نازک وقت میں عہدہ سنبھالا۔ وہ ایک ایسے وقت میں آئے ہیں جب سیاسی تناؤ بہت زیادہ ہے اور دی گئی لائن کے اوپر چلنا ہی محتاط انداز ہے۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ یہ اصل میں آئی ایم ایف تھا جس نے سٹیٹ بینک کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ حکومت نے ایس بی پی کو اس طریقے سے کام کرنے کی ہدایت کی تھی جس سے آئی ایم ایف کے معاہدے کو تحفظ ملے۔ اگرچہ ان کی وراثت اب بھی بدل سکتی ہے بشرطیکہ ان کے پاس ملازمت میں مزید دو سال باقی ہیں، لیکن امکان ہے کہ انہیں بینک کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے یاد نہیں رکھا جائے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here