پاکستان خلیجی ممالک کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے معاہدوں پر مذاکرات کر رہا ہے: رپورٹ

146

لاہور: امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ پاکستان اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کے لئے خلیجی ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے کیونکہ ملک کو اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور تیل سے مالا مال خلیجی بادشاہتیں اپنی معیشتوں کو متنوع بنانے اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔

اخبار نے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ سعودی عرب پاکستان سے تانبے کی ایک بڑی کان خریدنے کیلئے مذاکرات کر رہا ہے جس پر کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ 7 ارب ڈالر کی لاگت سرمایہ کاری سے کان کنی کر رہی ہے۔

اخبار نے پاکستانی اور خلیجی حُکام کا حوالا دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان تقریباََ میں 14 ارب ڈالر کی لاگت سے سعودی آئل ریفائنری کے قیام کے لیے مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔

خلیجی ریاستوں کی جانب سے پاکستان یا مصر جیسے ممالک کو مالی امداد دینے کے حوالے سے پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ اب وہ قرضے یا گرانٹ دینے کے بجائے اپنے خودمختار ویلتھ فنڈز کے ذریعے ان ملکوں میں اثاثوں کے حصول پر توجہ دے رہے ہیں۔

24 کروڑ سے زائد آبادی کا حامل پاکستان گزشتہ تقریباََ دو سال سے معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور اپنی معاشی مشکلات کم کرنے اور زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے اس نے جون 2023ء میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تین ارب ڈالر قرض کا نیا معاہدہ کیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستانی فوج خلیجی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جنہوں نے ماضی میں سرخ فیتے اور سیاسی قوتوں کی فیصلہ سازی میں ہچکچاہٹ کی شکایت کی تھی۔

کان کنی، توانائی کا بنیادی ڈھانچہ، زراعت اور سرکاری کمپنیوں کی نجکاری وغیرہ یہ سب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے سرمایہ کاروں کا بنیادی ہدف ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کی ہے جس میں آرمی چیف بھی شامل ہیں۔ اس کونسل کا مقصد نوکرِ شاہی کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے خلیجی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔

پاکستان کے سبکدوش ہونے والے وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “پاکستان سٹریٹجک طور پر ایشیا میں ترقی کے انجن کے سنگم پر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان واقع ہے۔”

احسن اقبال خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کے لیے یہاں آنے کا نادر موقع ہے ہم انہیں یقین دہانی کرواتے ہیں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا۔

سعودی عرب کے نائب وزیر برائے کان کنی اور نائب وزیر خارجہ نے رواں ماہ سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کیلئے اسلام آباد کا دورہ کیا۔

اخبار نے مزید لکھا ہے کہ اسلام آباد میں آنے والی نگراں انتظامیہ کو کچھ نئے اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ وہ بڑے اور اہم اقتصادی فیصلے کرنے کے قابل ہو سکے۔

خلیجی ممالک نے طویل عرصے سے پاکستان کی فوج کے ساتھ براہ راست معاملات طے کیے ہیں جس نے کئی دہائیوں سے سعودی عرب کو فوجی دستے فراہم کیے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا پہلا بیرون ملک دورہ سعودی عرب کا تھا جہاں انہوں نے جنوری میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔

پاکستان میں خلیجی ممالک کے زیادہ تر سرکاری اداروں کی طرف سے سرمایہ کاری متوقع ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں مصر، ایتھوپیا، سوڈان اور دیگر افریقی ملکوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے سنٹر آن گلوبل انرجی پالیسی کے محقق کیرن ای ینگ کہتے ہیں کہ ’’خلیجی ملکوں کیلئے پاکستان اور مصر علاقائی سلامتی میں اولین ترجیح ہیں۔ وہ قطعی طور پر مصر یا پاکستان کو ناکام ریاست کے طور دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

تاہم زین وینچر کیپیٹل کے بانی فیصل آفتاب کہتے ہیں کہ مصر اور پاکستان میں خلیجی ملکوں کی سرمایہ کاری میں دلچسپی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں بڑی آبادی والے ملک ہیں اور ان کا قابل کاشت رقبہ بہت زیادہ ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس بڑی فوجیں بھی ہیں۔ کسی خلیجی ملک کے پاس ایسے مواقع موجود نہیں۔

تاہم فیصل آفتاب نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ آخری موقع ہے۔ اسے خلیجی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان شمسی توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت تقریباً 25 ارب ڈالر کے سودوں کی امید کر رہا ہے۔

پاکستان کی دفاعی صنعتیں بھی سرمایہ کاری کے لیے کھلی ہیں اور زراعت کے لیے غیر کاشت شدہ سرکاری زمین بھی طویل لیز پر دینے کیلئے تیار ہے۔

دوسری جانب خلیجی ممالک کی جانب سے تاحال کسی قسم کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے کہ وہ کتنی سرمایہ کاری کریں گے۔ تاہم جنوری 2023ء میں پاکستان کے آرمی چیف کے دورے کے بعد سعودی حکام نے کہا تھا کہ وہ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔

مصر اور پاکستان میں اقتصادی بحران کی وجہ سے مقامی کرنسیوں کی قدر میں کمی آئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے قابل فروخت اثاثے ممکنہ طور پر سستے داموں دستیاب ہوں گے تاہم  سعودی عرب نے مصر میں توقع سے کم سودے کیے ہیں۔

قطر اور متحدہ عرب امارات دونوں کی دلچسپی کا پہلا مرکز جلد ہی جاری ہونے والا اسلام آباد ہوائی اڈے کی آئوٹ سورسنگ کا ٹینڈر ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے کابل ہوائی اڈے کے حصول کیلئے سخت مقابلہ کیا تھا جو گزشتہ سال متحدہ عرب امارات نے جیتا تھا۔ پاکستان اپنی قومی ائیرلائن کیلئے بھی سرمایہ کاروں کی تلاش میں ہے۔

واضح رہے کہ حال میں بلوچستان میں ریکوڈک کی کانوں پر کام کرنے والی بیرک گولڈ کے سی ای او نے رائٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ سعودی ویلتھ فنڈ ریکوڈک میں پاکستانی حکومت سے شئیرز خرید سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here