لاہور: اسلامی بینکاری، جسے اکثر اسلامی مالیات یا شریعت کے مطابق مالیات کا نام دیا جاتا ہے، میں ایسی مالی سرگرمیاں شامل ہیں جو شریعت کے اصولوں (اسلامی قانون) سے ہم آہنگ ہوں۔ اس کے بنیادی طور پر دو اہم اصول ہیں جو اسے دیگر روایتی بینکاری نظام سے ممتاز کرتے ہیں: سود پر مبنی لین دین کی ممانعت اور منافع اور نقصان دونوں کو بانٹنے پر زور۔
پی ڈبلیو سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ اقتصادی ماڈل خاص طور پر حالیہ برسوں میں غیر معمولی طور پر نمایاں ہوا ہے۔ پاکستان انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ مذہبی عوامل کے پیش نظر پاکستان کی اسلامی بینکاری صنعت کو عوام کی طرف سے زبردست مثبت ردعمل ملا ہے۔
محض اعدادوشمار سے ہٹ کر اسلامی بینکاری نے کافی حد تک مارکیٹ کا حصہ حاصل کر لیا ہے جس سے لوگوں کے مالیاتی رجحانات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ ایک ایسی قوم میں جہاں گہرے مذہبی عقائد زندگی کی تشکیل کرتے ہیں وہاں اسلامی بینکاری محض مالیاتی متبادل نہیں، یہ ذاتی مذہبی اقدار اور معاشی انتخاب کی حقیقی علامت ہے۔
پاکستان میں اسلامی بینکاری کی صنعت
دسمبر 2022ء تک اسلامی بینکاری 22 اسلامی مالیاتی اداروں پر مشتمل تھی جس میں پانچ مکمل اسلامی بینک (IBs) اور 17 روایتی بینک شامل ہیں، جو کل بینکاری صنعت کا تقریباً 80 فیصد ہیں جن کی اسلامی بینکاری شاخیں (IBBs) ہیں۔ پانچ مکمل طور پر اسلامی بینکوں میں میزان بینک، بینک اسلامی، البرکہ بینک، دبئی اسلامی بینک اور ایم سی بی اسلامی بینک شامل ہیں۔ رواں برس کے اوائل میں فیصل بینک ایک مکمل اسلامی بینک میں تبدیل ہوا جس سے مکمل اسلامی بینکوں کی تعداد 6 ہو گئی۔
اسلامی بینکاری کا تصور تقریباً دو دہائیاں قبل متعارف ہوا۔ جس کے بعد سے اس صنعت نے نمایاں طور پر ترقی کی ہے۔ اپنے اثرات کے لحاظ سے اسلامی بینکاری مالیاتی شعبے کے اندر کل اثاثوں کا تقریباً 20 فیصد رکھتی ہے۔ یہ تقریباً 7 ٹریلین روپے بنتے ہیں۔ یہ اثر و رسوخ اور بھی بڑھتا نظر آتا ہے جب ایڈوانسز (نجی شعبے کو قرضے) میں 25 فیصد حصہ کا دعویٰ کیا جاتا ہے، یہ رقم تقریباً 3 ٹریلین روپے ہے۔ اس کا بینکنگ انڈسٹری کے مجموعی ڈپازٹس میں حصہ 22 فیصد ہے جس کا حجم تقریباً 5 ٹریلین روپے ہے۔
اسلامک بینکاری کی طلب
جب بینکاری خدمات حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو مذہبی جذبات بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ‘گلوبل فائنڈیکس ڈیٹا بیس 2021ء’ ایک دلچسپ صورتحال کو ظاہر کرتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنا محض معیشت کا حصہ بننا نہیں بلکہ پس پردہ اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی نفسیات کارفرما ہے۔ بینک اکاؤنٹ نہ کھولنے کی عام طور پر بیان کردہ وجوہات میں سے ایک وجہ مذہبی عقائد بھی ہیں۔ یعنی لوگوں نے بینک اکاؤنٹ کھولنے سے گریز کیا کیونکہ وہ سود سے بچنا چاہتے تھے۔
پاکستان کے بینکاری منظر نامے میں ڈیپازٹ اکاؤنٹس کی موجودہ رفتار اس رجحان کی عکاس ہے۔ کل ڈیپازٹس کا 41 فیصد کرنٹ اکاؤنٹس میں موجود ہے۔ یہ اکاؤنٹس بغیر سود کے خدمات فراہم کرتے ہیں۔
میزان بینک لمیٹڈ کے صدر اور سی ای او عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ “اسلامی بینکاری نے مالیاتی شمولیت میں کافی اضافہ کیا ہے۔ اس کا حصہ بڑھنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ روایتی بینکنگ سے حصہ چھینا جا رہا ہے، دراصل اس کا مطلب یہ بینکاری نظام میں نئے ڈپازٹس کا اضافہ ہو رہا ہے۔”
سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ یو کے کی مشترکہ تحقیق دلچسپ اور اہم حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ کاروباروں کے مالکان کے اسلامی بینکاری کی طرف جھکاؤ اور ترجیح کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تحقیق میں 62 فیصد اُن افراد نے شریعہ پر مبنی بینکاری مصنوعات میں سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی جن کے بینک اکائونٹ تھے جبکہ 45 فیصد اُن افراد نے بھی اس کی حمایت کی جو تاحال بینکوں کے ساتھ منسلک نہیں۔ حیران کن طور پر 74 فیصد جو پہلے ہی بینکنگ کے دائرہ کار میں ہیں اسلامی بینکاری میں منتقلی کے لیے آمادگی ظاہر کی۔
اسی طرح 64 فیصد کاروباروں نے منافع اور نقصان میں شراکت داری (پی ایل ایس) کی حمایت کی۔ منافع اور نقصان میں شراکت داری (profit and loss sharing) دراصل شریعہ پر مبنی ایکویٹی فنانسنگ کی شکل ہے جیسے مضاربہ اور مشارکہ۔
مضاربہ سے مراد “ٹرسٹی فنانس” یا غیر فعال شراکت داری کا معاہدہ ہے جبکہ مشارکہ سے مراد ایکویٹی کی بنیاد پر شراکت داری کا معاہدہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ تصور جوائنٹ وینچر طرز کا ہے جس میں شراکت دار اپنی ملکیت کی بنیاد پر نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
پاکستان کے بینکاری نظام میں اسلامی بینکاری کے بڑھتے ہوئے حصے کے ساتھ یہ تحقیقی نتائج ناصرف اس کی قبولیت کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ربا سے پاک بینکاری نظام کی حمایت بھی کرتے ہیں جس سے اس صنعت کے امید افزا امکانات کو تقویت ملتی ہے۔
فیصل بینک لمیٹڈ کے صدر اور سی ای او یوسف حسین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “اسلامی بینکنگ کی طرف راغب ہونا کسٹمر کی فطری ترجیح ہے۔ نہ صرف غیر بینک شدہ مارکیٹ دستیاب ہے بلکہ روایتی مارکیٹ بھی شریعہ پر مبنی بینکنگ کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔”
مرکزی بینک کا کردار
پائیدار ترقی کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کا مرکزی کردار ہے۔ یہ ایک مناسب ریگولیٹری اور سپروائزری فریم ورک کے قیام کے علاوہ اسلامی بینکاری اداروں کے فروغ کیلئے سرگرم عمل ہے۔ سٹیٹ بینک نے اسلامی بینکوں کے لیے برابری کی سطح پر قوانین اور رہنما خطوط وضع کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے اسلامی بینکاری کو فروغ دینے کے لیے کئی طرح کے ضابطے اور مراعات متعارف کروا رکھی ہیں۔
ایس بی پی کا اسلامک بینکنگ سٹریٹجک پلان 25-2021ء ایسا ہی ایک اقدام ہے۔ اس منصوبے کا مقصد اسلامی بینکوں کے اثاثوں اور ذخائر کا حصہ مجموعی بینکاری کا 30 فیصد جبکہ اسلامی بینکوں کی شاخوں کو 35 فیصد تک بڑھانا ہے۔ اس کے لیے اسلامی بینکاری کے شعبے میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کے لیے نجی شعبے کی فنانسنگ کو 10فیصد اور زراعت کے لیے 8 فیصد تک بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کا اسلامک بینکاری پر زور
اپریل 2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا جس میں مروجہ سود پر مبنی بینکاری نظام کو شریعت کے اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ سود سے پاک نظام کے تحت قرضوں کی سہولت فراہم کرے۔ عدالت نے حکومت کو مزید ہدایت کی کہ وہ ملک میں اسلامی بینکاری کے نفاذ کے لیے قوانین بنائے، ضروری ترامیم کرے اور دسمبر 2027 تک ملک کا بینکاری نظام سود سے پاک ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ ربا (سود) کے خلاف برسوں سے زیر التواء درخواستوں پر آیا تھا۔
فروری 2023 میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں اسلامی مالیاتی نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وزارت خزانہ، سٹیٹ بینک، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور گورنر سٹیٹ بینک کی سربراہی میں شریعی سکالرز جیسے اہم سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو براہ راست ان کی نگرانی میں کام کرے گی۔
اگلے دو سالوں میں اسلامی بینکاری کا حصہ 20 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کرنے کی اپنی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر سٹیٹ بینک نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان بینکوں کو سہولت فراہم کرے گا جو اپنے کاروبار کو شریعی اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسلامی بینکاری میں منتقلی
عدالتی حکم کے علاوہ بھی بینکوں کو اسلامی بینکاری کی صلاحیت معلوم ہے، وہ اس کے بڑھتے ہوئے مارکیٹ شیئر سے واقف ہیں۔ اس لیے کئی بینک اسلامی بینکاری میں منتقلی کیلئے کوشاں ہیں۔
2023 کے اوائل میں فیصل بینک نے ایس بی پی کی جانب سے اسلامی بینکنگ لائسنس جاری کیے جانے کے بعد کامیابی کے ساتھ ایک مکمل اسلامی بینک میں منتقلی کا عمل مکمل کیا۔ اس لائسنس سے فیصل بینک میزان بینک کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مکمل اسلامی بینک بن گیا۔ فیصل بینک نے 2015 میں اسلامی بینکاری میں منتقلی کا عمل شروع کیا تھا۔ اس وقت اس بینک کے پاس پہلے سے ہی 53 برانچوں کے ساتھ ملک میں دوسری سب سے بڑی اسلامی بینکنگ ونڈو موجود تھی۔
اس رجحان کے ساتھ سمٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بینک کے آپریشنز کو روایتی سے ایک مکمل اسلامی بینک میں تبدیل کرنے کے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے۔ اس نے اسلامی بینک کے طور پر اپنی شناخت کو واضح کرنے کے لیے اپنا نام بدل کر بینک مکرمہ رکھ دیا۔ اسی طرح کی پیروی کرنے والے دیگر بینکوں میں زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ بھی شامل ہے جبکہ بہت سے دوسرے بینکوں نے بھی اسلامی بینکوں میں منتقلی پر غور کیا ہے۔
بلاشبہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بینکاری کے منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر 2027 تک سود پر مبنی بینکاری نظام کو مکمل طور پر ختم کر کے اس کی جگہ ایک مکمل شریعہ کے مطابق بینکنگ انڈسٹری کو لانا ہے تو روایتی بینکوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، فیصل بینک کو اپنی منتقلی کا عمل مکمل کرنے میں 8 سال لگے۔
اس کے علاوہ اسلامی بینکاری میں تبدیلی کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے یوسف حسین نے کہا کہ “اسلامی بینکنگ میں منتقلی کی منصوبہ بندی احتیاط سے کی جانی چاہیے۔ بینک کے نظام، مصنوعات، انتظامی امور، انسانی وسائل اور کاروبار کا امکان ہر پہلو کا احتیاط سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسٹمراس عمل کے لیے ضروری ہے، سب سے بڑا مسئلہ ذہنیت کی تبدیلی ہے۔‘‘
پاکستان میں زیادہ تر بینکوں کے پاس پہلے سے ہی اسلامی بینکنگ شاخیں موجود ہیں۔ اس لیے انہیں متعلقہ مصنوعات، خدمات اور ٹیکنالوجی کا کچھ تجربہ ہے۔ تاہم زیادہ اسلامی شاخوں والے بینکوں کیلئے تبدیلی کا عمل جلد مکمل ہو سکتا ہے جبکہ دوسروں کیلئے یہ رفتار لامحالہ کم ہو گی۔
اسلامی بینکاری میں تبدیلی کے لیے شرعی اصولوں اور متعلقہ ریگولیٹری تقاضوں کے مطابق نئی پالیسیاں، عمل اور مصنوعات متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس انقلابی تبدیلی کے لیے بڑی سرمایہ کاری اور غیر متزلزل کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس میں آپریشنل تیاری کو سپورٹ کرنے کے لیے تجربہ کار افراد کی تعیناتی اور پہلے سے موجود افرادی قوت کی جدید بنیادوں پر تربیت جیسے اقدامات کے ذریعے صلاحیت کو بڑھانا بھی شامل ہو سکتا ہے۔
پورٹ فولیو کی تبدیلی لانے کیلئے پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے، جس سے اکاؤنٹنگ کی پیچیدہ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے مالیاتی اثرات برآمد ہوتے ہیں۔ اس میں گاہک کی رضامندی کے تقاضوں سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، مختلف پروڈکٹس/سکیموں میں تبدیلی کا خطرہ، اس پر قابو پانے کے لیے تیاری کی سطح اور تبادلوں کے عمل، اہداف اور کامیابیوں پر مضبوط گورننس شامل ہو سکتی ہے۔
آگے کا راستہ
پاکستان کا اسلامی بینکاری منظر نامہ ایک متحرک اور فعال قوت کے طور پر ابھرا ہے جو شریعت کے اصولوں سے تیار کیا گیا ہے اور غیر متزلزل مذہبی عقائد کے ذریعے آگے بڑھا ہے۔ یہ مالیاتی فریم ورک محض متبادل ہونے کی وجہ سے پیچھے ہے۔ یہ انفرادی اخلاقیات اور معاشی فیصلوں میں گہری یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سازگار ماحول کی فراہمی اور جامع اسلامی مالیاتی نظام کی جانب حالیہ حکومتی تحریک کے بل بوتے پر یہ صنعت توسیع کے راستے پر گامزن ہے۔