اسلام آباد: اگرچہ ایک جانب روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل خریدنے کیلئے طویل المدتی معاہدے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو دوسری جانب ذرائع کے مطابق پاکستان نے روسی تیل کی مزید درآمد روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے اس مبینہ فیصلے کے پس منظر میں یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ روسی خام تیل اقتصادی نکتہ نظر سے پاکستان کیلئے کم فائدہ مند ہے۔
روسی خام تیل کا پہلا کارگو مہینوں طویل بات چیت اور اعلانات کے بعد جون میں کراچی بندرگاہ پہنچا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت نے بھی اس کے بے شمار فوائد گنوائے تھے۔
تاہم ذرائع نے پرافٹ اردو نیوز سروس کو بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے مطابق روسی خام تیل کی دوسری کھیپ بھی پہنچا دی گئی ہے اور پاکستان کو اس کے فوائد بہت محدود نظر آئے ہیں جبکہ اس سے فرنس آئل کی پیداوار نسبتاََ زیادہ ہے۔
سابق وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بھی 9 اگست 2023 کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ روسی خام تیل کے اقتصادی اثرات کا تعین ہونا باقی ہے۔
اس سے قبل حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ایک لاکھ بیرل یومیہ روسی خام تیل درآمد کرکے ملک کی تیل کی دو تہائی ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ تاہم حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق ترسیلی لاگت اور غیرملکی کرنسی کی کمی کی وجہ سے اَب تک کے فوائد محدود ہیں۔ پاکستان نے پہلی کھیپ کی ادائیگی چینی یوآن میں کی تھی لیکن روسی یورال سے عرب لائٹ کے مقابلے میں کم معیار کی مصنوعات کشید کی گئیں۔
پروسیسنگ کے مسائل
روسی خام تیل کی درآمد معطل کرنے کی خبریں پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیے جانے کے بعد سامنے آئی ہیں۔ پاکستان ریفائنری کو یورال کو آزمائشی بنیادوں پر صاف کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
البتہ پاکستان ریفائنری کی جانب سے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مناسب تجارتی نرخوں کی دستیابی کی صورت میں وہ روسی یورال کو دوبارہ صاف کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ معطلی صرف عارضی ہے اور اگر روس نے خصوصی رعایت کی پیشکش کی تو پاکستان یورال کی درآمد دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن نے بھی اِن خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ روسی خام تیل کی درآمد روکی گئی ہے اور نا اس کے فوائد “محدود” ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی کھیپ آزمائشی تھی اور اب ایک معاہدے پر کام ہو رہا جس میں وقت لگتا ہے۔