روپے کی مسلسل گراوٹ، انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ کا فرق کم رہ گیا

194
dollar-reaches-rs285-as-pakistani-rupee-in-free-fall

کراچی : 15 اگست کو انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید گر گیا جس سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ کا فرق کم ہو گیا۔ یہ فرق عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پاکستان کے معاہدے کے مطابق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ نئی عبوری حکومت کے پہلے دن ہی سامنے آئی۔ انوارالحق کاکڑ کے نگراں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد آنے والی اچانک گراوٹ نے اس حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا روپے کا انٹربینک ریٹ سبکدوش ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کنٹرول کر رہی تھی؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے فراہم کردہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں روپیہ 3.02 روپے فی ڈالر کی کمی کے ساتھ 291.51 روپے پر بند ہوا جو 288.49 روپے کی پچھلی بندش سے 1.05 فیصد کم ہے۔ عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق 11 مئی 2023 کو 298.93 روپے کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچنے کے بعد سے یہ روپیہ کی دوسری سب سے کم ترین سطح ہے۔

دریں اثناء اوپن مارکیٹ میں روپیہ 300 روپے سے اوپر تجارت کرتا رہا۔ یہ 8.49 روپے یا 2.91 فیصد کے فرق کے برابر ہے۔ جون میں اقتصادی بیل آؤٹ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی شرائط کے تحت حکومت کو انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں کم و بیش ایک ہی طے شدہ شرح پر عمل کرنا تھا جس میں زیادہ سے زیادہ فرق 1.25 فیصد ہو سکتا ہے۔

جب مخلوط حکومت گزشتہ ہفتے عبوری وزیراعظم کا نام فائنل کیے بغیر ختم ہوئی تو اوپن مارکیٹ میں روپیہ 302 روپے فی ڈالر تک گر گیا جس کی وجہ تجزیہ کاروں نے سیاسی غیر یقینی کو قرار دیا۔ اسی وقت 11 اگست کو انٹربینک مارکیٹ ریٹ 288.49 روپے پر تھا یوں دونوں مارکیٹس میں فرق 13.51 روپے ہے۔

لہذا انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی گراوٹ اس فرق کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ اسماعیل اقبال سکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف نے وضاحت کی کہ اوپن مارکیٹ کا گراف اوپر ہونے کی وجہ سے انٹربینک مارکیٹ دباؤ کا شکار ہو گئی تھی کیونکہ آئی ایم ایف نے شرحوں کا فرق لگاتار پانچ کاروباری دنوں تک 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں رکھا تھا۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف یہ بھی چاہتا تھا کہ ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کے مطابق طے کیا جائے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت تجارتی پابندیاں لگا کر روپے کو “منظم” کرنے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

عارف حبیب لمیٹڈ کی ایک سینئر تجزیہ کار ثنا توفیق نے کہا کہ اس لیے درآمدی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

فہد رؤف نے یہ بھی کہا کہ پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد درآمدی ادائیگیوں میں اضافے اور اس کے نتیجے میں مانگ میں اضافے نے روپے پر دباؤ ڈالا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here