آئی ایم ایف، معاشی صورت حال اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی ذمہ داریاں

91
Anwarul Haq Kakar

لاہور: وزیراعظم ہائوس میں انوارالحق کاکڑ کے پہلے دن کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوا ہے کہ آٹھویں نگران وزیراعظم کے لیے بظاہر معیشت کی صورتحال اولین ترجیح ہے۔

نگراں سیٹ اپ کے پہلے دن روپے کے انٹربینک ریٹ میں متعدد تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں طور پر 17 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا۔ جہاں تک ارادوں اور بیانات کا تعلق ہے انوارالحق کاکڑ کی طرف سے اشارے مثبت معلوم ہوتے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے معیشت پر اپنے پہلے اجلاس میں آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے پر عمل درآمد بارے بریفنگ لی اور اس پروگرام کو مکمل کرنے اور پاکستان کی معیشت کو پٹڑی پر رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

نگران وزیر اعظم کو جو کام کرنا ہے وہ بڑی ذمہ داری ہے۔ ایک طرف ان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادانہ، منصفانہ اور بروقت انتخابات کو یقینی بنائیں۔ یہ ان کے دور کا سب سے اہم کام ہے اور انہیں پہلے ہی اس محاذ پر ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے کیونکہ سبکدوش ہونے والی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ  انتخابات حالیہ مردم شماری کے مطابق کرائے جائیں گے۔

انوار الحق کاکڑ کو پہلے ہی 90 دن کا مینڈیٹ دیا گیا ہے کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے جلد ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اتنے کم وقت میں حلقہ بندیاں مکمل ہوں گی۔ اس لیے امکان ہے کہ وہ ملکی تاریخ میں کسی بھی نگران وزیراعظم سے زیادہ طویل مدت کیلئے حکومت میں رہیں اور جبکہ انتخابات ہی واحد چیز ہونی چاہیے جس کے لیے کسی بھی نگران کو اچھی طرح سے یاد رکھا جانا چاہیے، لیکن سب کی نظریں اس کے بجائے اس بات پر مرکوز ہیں کہ موجودہ نگراں وزیراعظم معیشت کو کیسے چلاتے ہیں۔

نگراں سیٹ اپ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہے جو ملکی تاریخ کا شاید بدترین بحران ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 30 جون 2023ء کو پاکستان آئی ایم ایف کے آخری پروگرام کو مکمل کرنے میں ناکام رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ملک کے پاس اپنے بیرونی قرضوں کو ڈیفالٹ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تاہم شہباز شریف آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ موجودہ معاہدہ جس کے تحت پاکستان معاشی طور پر زندہ ہے وہ 3 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی معاہدہ ہے جو 9 ماہ کی مدت تک جاری رہے گا اور یہ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے۔ ابھی تک پاکستان کو قرض کی پہلی قسط ملی ہے۔

سٹینڈ بائی ایگریمنٹ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جو بھی نگراں سیٹ اپ آیا اسے اپنی آئینی حدود سے باہر نہیں جانا پڑے گا اور آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام پر بات چیت نہیں کرنا پڑے گی۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انوار الحق کاکڑ کو اب یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہوں۔ ابتدائی علامات اچھی ہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور آئی ایم ایف کے تقاضوں کے مطابق ڈالر کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

تاہم وزیراعظم کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام کے کل 9 ماہ میں سے از کم تین ماہ کے لیے اقتدار میں رہنے والے ہیں جبکہ آئی ایم ایف معاہدے کا پورا نکتہ نگرانوں کو آنے، انتخابات کرانے، اور نئی حکومت کو ایک نئے معاہدے پر بات چیت کرنے کی اجازت دینا تھا۔

نگران وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے گا اور وہ مزید معاشی بہتری لائیں گے، عوامی فلاح کے منصوبے جاری رہیں گے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولتی کونسل کے تحت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ نگراں حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

اگرچہ یہ مثالی حالات نہیں۔ یہی دراصل وہ کردار ہے جس کے لیے انہیں چنا گیا ہے۔ ان کے لیے جم کر اس کردار کو نبھانا اس وقت کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here