دہلی: بھارت اگلے سال ریاستی اور قومی انتخابات سے قبل سپلائی کو بڑھانے اور غذائی افراط زر کو روکنے کے لیے ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر رعایتی قیمت پر گندم درآمد کرنے کے لیے روس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
درآمدات سے نئی دہلی حکومت کو گندم کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے مارکیٹ میں زیادہ مؤثر طریقے سے مداخلت کرنے کا موقع ملے گا جس نے جولائی میں افراط زر کو 15 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک ذرائع نے برطانوی خبر ایجنسی کو بتایا کہ بھارتی حکومت نجی تجارت اور گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ڈیل کے ذریعے گندم درآمد کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔
بھارت نے کئی سالوں سے سفارتی معاہدوں کے ذریعے گندم درآمد نہیں کی۔ آخری بار ہندوستان نے 2017 میں ایک قابل ذکر مقدار میں گندم درآمد کی تھی جب نجی تاجروں نے 53 کروڑ میٹرک ٹن کی ترسیل کی تھی۔
اس بات سے قطع نظر کہ گزشتہ ماہ بھارت کی وزارت خوراک کے سب سے سینئر سرکاری ملازم سنجیو چوپڑا نے کہا تھا کہ روس سے گندم درآمد کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کا روسی گندم درآمد کرنے کا منصوبہ دراصل اس سکیم کا حصہ ہے جس پر ایندھن، اناج اور دالوں جیسی اہم اشیاء کی قیمتوں میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں کم آمدن طبقات کیلئے مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عمل کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ بھارت کو مقامی سطح پر قلت کو پورا کرنے کے لیے 30 سے 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہے تاہم نئی دہلی قیمتوں پر بہت زیادہ اثر ڈالنے کے لیے روس سے 80 سے 90 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے پر غور کر سکتا ہے۔ ایک بھارتی سرکاری عہدیدار کے مطابق روس بھی عالمی مارکیٹ کی موجودہ قیمتوں کی بجائے رعایتی قیمت پر گندم فروخت کرنے پر آمادہ ہے اور بھارت کیلئے روسی غذائی اجناس کی برآمد پر کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال یوکرین میں جنگ کے بعد خاص طور پر نئی دہلی کی طرف سے تیل کی رعایتی خریداری کی وجہ سے روس بھارت کا دوسرا سب سے بڑا شراکت دار بن چکا ہے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ہندوستان روس سے سورج مکھی کا تیل بھی درآمد کر رہا ہے اور ادائیگیاں امریکی ڈالر میں طے کر رہا ہے اور اسی طریقہ کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔