ملک ریاض کا بینک برائے فروخت، کیا پراپرٹی ٹائیکون کا بینکنگ سیکٹر میں سفر اختتام پذیر ہو جائے گا؟

290

کراچی: بالآخر ملک ریاض کے ایسکارٹس انویسٹمنٹ بینک کو ایک نیا خریدار مل گیا۔ آر ایم ایس پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے عارف حبیب نے پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو باضابطہ طور پر مذکورہ بینک کے 87.96 فیصد شئیرز خریدنے کیلئے اظہارِ دلچسپی کر دیا۔

ایسا لگتا ہے کہ آر ایم ایس لمیٹڈ اپنے بزنس کو توسیع دینا چاہتی ہے کیونکہ اس نے ایک ہفتہ قبل ہی بلوچستان وہیلز کے شئیرز خریدنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے سی ای او ذیشان علی نے بتایا کہ ”آر ایم ایس ہمیشہ پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سب سے آگے رہی ہے۔ ہم نے ابھرتے ہوئے کاروباری ماحول سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے موافقت اور تنوع کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔‘‘

آر ایم ایس کی جانب سے اظہارِ دلچسپی کے بعد ایسکارٹ بینک کے سٹاکس کی قیمت 15 اگست 2023 کو 7.19 روپے تک پہنچ گئی جو 11 اگست 2023 کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے۔

حال ہی میں یہ پی ایس ایکس کی جانب سے ایسکارٹ بینک کو ایک نوٹس بھیجا گیا کہ 3 جولائی 2023 سے 31 جولائی 2023 کے درمیان اس کے شٸیرز کی قیمت اور تجارتی حجم میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھی گئی۔ 3 جولائی 2023 کو ایسکارٹ بینک کے ایک شیئر کی قیمت 3.20 روپے تھی اور تجارتی حجم 5500 شٸیرز تھا۔ تاہم 31 جولائی 2023 تک 41 فیصد اضافے سے فی شئیر قیمت 4.52 روپے ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی تجارتی حجم 19 گنا بڑھ کر ایک لاکھ شٸیرز سے تجاوز کر گیا۔ تاہم ایسکارٹ بینک نے پی ایس ایکس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کسی معاملے سے آگاہ نہیں جس کے نتیجے میں شٸیرز کی قیمت میں غیر معمولی اتار چڑھائو آیا ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ بینک کے شٸیرز کی قیمت اور تجارتی حجم میں اضافہ نئے خریدار کی وجہ سے ہوا ہے۔

پرافٹ نے تبصرے کیلئے ایسکارٹ بینک کے سی ای او باسط رحمان ملک سے رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

جولائی 2017 میں بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ نے اسکارٹ انویسٹمنٹ بینک کے 71 فیصد شیئرز محض ایک روپے میں خرید لیے۔ تاہم بینک کے تمام واجبات بحریہ ٹائون پرائیویٹ لمیٹڈ کی ذمہ داری بن گئے کیونکہ اس کی مالی حالت نہایت خراب تھی۔ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے خریدے جانے سے قبل یہ تقریباً 57 کروڑ روپے پر ڈیفالٹ کر چکا تھا جس میں سے تقریباً 49 کروڑ روپے ڈپازٹ ہولڈرز کے تھے۔ بینک سات سالوں سے کم از کم ایکویٹی کی ضرورت بھی پوری نہیں کر پا رہا تھا۔

اس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے بینک میں 1.2 ارب روپے رکھے، کھاتہ داروں کو ادائیگی کی، 53 کروڑ روپے کا مارک اَپ جمع کیا اور کم از کم ایکویٹی کا تقاضا بھی پورا کر دیا اور بینک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔

دراصل بینک کے حصول کا بنیادی مقصد ملک ریاض کیلئے اپنے رئیل اسٹیٹ بزنس کیلئے سہولت پیدا کرنا تھا تاکہ ہائوسنگ پروجیکٹس کیلئے مورٹگیج کی ضرورت پڑے تو آسان ترین اور قابل رسائی مالی وسیلہ موجود ہو۔ افسوس کہ یہ مقصد پورا نہ ہو سکا۔

مسئلہ یہ تھا کہ بینک اپنے کم ذخائر اور خسارے کی وجہ سے مسابقتی شرح پر قرض دینے سے قاصر تھا۔ اس کے علاوہ بینک کا مقابلہ ہاؤسنگ فنانس کیلئے سرکاری پروگرام سے بھی تھا۔ نتیجتاً چیلنجز اور ناکامیوں کے بعد ملک ریاض نے بالآخر بینک کو مکمل طور پر فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

ملک ریاض بینک کیلئے خریدار کی تلاش میں ہیں۔ تاہم حالات موافق نہیں رہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ایسکارٹس بینک کو خریدنے کی دو کوششیں ہوئیں لیکن بات نہیں بنی۔

بینک کو خریدنے کی پہلی کوشش

31 اگست 2021ء کو ایم منیر ایم احمد خانانی سیکیورٹیز نے ایسکارٹس بینک سے پروگریسو گروپ کے سید صبور رحمٰن اور جے آر ڈیلاس ویلتھ مینجمنٹ کے مینجرز کے طور پر رابطہ کیا جنہوں نے ایسکارٹس بینک کے 50 فیصد سے زائد شئیرز کے حصول کیلئے مشترکہ دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم 28 اکتوبر 2021 کو جے آر ڈلاس ویلتھ مینجمنٹ نے دستبرداری اختیار کر لی جس سے صبور رحمٰن ایسکارٹس بینک کے 50 فیصد سے زیادہ شیئرز خریدنے کے واحد دعویدار رہ گئے۔ اس پیش رفت کے بعد معاہدے کے حوالے سے کافی خاموشی رہی۔ 14 فروری 2022 کو ملک ریاض نے 9 ستمبر 2021 کو قائم کردہ شئیرز کی فروخت اور خریداری کے معاہدے کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا۔ نتیجتاً 21 فروری 2022 کو سید صبور رحمٰن نے پہلے سے اعلان کردہ پبلک اناؤنسمنٹ آف انٹینشن (PAI) کو واپس لے لیا۔

دوسری کوشش

مارچ 2022 میں، اے کے ڈی سکیورٹیز نے میاں جاوید اختر ، محمد علی کاظمی اور  میاں ذیشان جاوید کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسکارٹس بینک کے 50 فیصد شئیرز خریدنے کیلئے اظہارِ دلچسپی کیا۔ یکم مئی 2022 کو ملک ریاض نے مقررہ تاریخ تک معاہدے کی شرائط پوری نہ کرنے کی وجہ سے اسے ختم کر دیا۔

دلچسپ بات یہ کہ 27 مئی 2022 کو ملک ریاض نے دوبارہ ملک جاوید اختر اور محمد علی کاظمی کو شٸیرز کی فروخت کیلئ ازسرنو مذاکرات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی اور ستمبر 2022 میں اے کے ڈی سکیورٹیز نے اظہارِ دلچسپی کا اعلان واپس لے لیا۔

نیا خریدار کون ہے؟

آر ایم ایس 5 اکتوبر 2007 کو ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ اس کی بنیادی توجہ تعمیراتی شعبے پر ہے۔ خاص طور پر ڈیموں، سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں۔ اس کے علاوہ آر ایم ایس بنیادی ڈھانچے کی ترقی، واٹر مینجمنٹ، سکیورٹی سسٹم اور آٸی سی ٹی خدمات فراہم کرتی ہے۔

آر ایم ایس نے محض یہی بتایا ہے کہ ان کی بولی کا مقصد کاروبار کی توسیع اور اسے متنوع بنانا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا بینک کیوں خریدنا چاہیں گے جو خسارے سے دوچار ہو؟

آر ایم ایس کے سی ای او ذیشان علی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ اقدام آر ایم ایس میں مالیاتی مہارت کا خزانہ لائے گا جس سے کیپٹل مارکیٹس، سرمایہ کاری کی حکمت عملی اور رسک مینجمنٹ میں ان کا تجربہ ہماری انجینئرنگ کی صلاحیتوں کو مزید نکھارے گا جبکہ دو مختلف شعبوں کے علم کی منتقلی سے پراجیکٹ ڈیزائن، فنانشل ماڈلز اور پائیدار ترقی کے طریقوں میں جدت کی راہ ہموار ہو سکے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ “یہ ایک سٹریٹجک تبدیلی کا حصہ ہے جہاں ہم نہ صرف انجینئرنگ کی عمدہ کارکردگی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں بلکہ مالی خدمات کی مکمل رینج فراہم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ہمیں پاکستان کے زرعی اور آئی ٹی سیکٹر میں بے پناہ صلاحیت نظر آتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ فنڈنگ ​​کی سہولت ان شعبوں کی ترقی کے لیے ایک کلیدی محرک ہے۔ آر ایم ایس کی چھتری کے تحت ایک مالیاتی ادارہ بنا کر ہم ان شعبوں کو وسائل فراہم کر سکتے ہیں اور ان کی ترقی پر خاطر خواہ اثر ڈال سکتے ہیں۔‘‘

ذیشان علی نے تسلیم کیا کہ یہ سچ ہے کہ ایسکارٹس انویسٹمنٹ بینک کو حالیہ برسوں میں مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی اور ترقی کی صلاحیت بہت اہم ہے۔ ہم ایک واضح رسک مینجمنٹ پلان کے ساتھ یہ حصول کر رہے ہیں۔ انجینئرنگ اور فنانس دونوں شعبوں کے ماہرین کی ہماری مشترکہ ٹیم خطرات کی شناخت اور ان سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرے گی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ حصول ہمارے مجموعی استحکام کو خطرے میں ڈالے بغیر ہماری صلاحیتوں کو بڑھائے۔“

ایسکارٹس بینک گزشتہ چھ سالوں سے مسلسل خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ 2022 میں فی شیئر خسارہ بڑھ کر 1.45 روپے ہو گیا جو 2021 میں 0.6 روپے سے کم تھا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here