اسلام آباد: نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (DISCOs) کی ملکیت اور کنٹرول کی وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں کو منتقلی کا اہم معاملہ کابینہ کے سامنے لائے ہیں۔ اس معاملے کی اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ جس دن نئی نگران کابینہ نے حلف اٹھایا۔ وزیراعظم نے اسے اولین ترجیح کا مسئلہ قراردیا۔
اس وقت دس ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (DISCOs) وزارت توانائی کی پاور ڈویژن کے انتظامی کنٹرول میں ہیں۔ ڈسکوز کی طرف سے بجلی کے بلوں کی وصولی ایک طویل عرصے سے ایک مستقل چیلنج رہا ہے اور یہ باقاعدگی سے محسوس کیا جاتا رہا ہے کہ ڈسکوزوفاقی سطح پر زیر انتظام رہتے ہوئے اس کام کو مؤثر طریقے سے آگے نہیں بڑھا سکتیں۔ جس کے نتیجے میں گردشی قرضے میں اضافہ ہوا جو پہلے ہی 2.631 ٹریلین روپے تک بڑھ چکا ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ بجی چوری اور بلوں کی عدم وصولی کی وجہ سے گردشی قرضہ مزید بڑھ جائے گا۔
بجلی کی تقسیم کار کا موجودہ قانونی اور انتظامی ڈھانچہ میں صوبائی حکومتوں کا اہم کردار ہے جس میں پولیس کے ذریعے نفاذ، ضلعی انتظامیہ کے ذریعے کوآرڈینیشن اور بلوں کی وصولی میں صوبائی محکموں کا قانونی کردار وصولیوں تک محدود نہیں ہے۔ صوبائی حکومت اس کام کو خالصتاً وفاقی موضوع کے طور پر دیکھتے ہوئے نادہندگان سے بجلی کے بلوں کی وصولی میں ان DISCOs کو مطلوبہ تعاون فراہم نہیں کرتی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کے فعال تعاون کے بغیر ڈسکوز کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم شہباز شریف نے ڈسکوز کی صوبوں کو منتقلی پر وزیر دفاع کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
معلوم ہوا ہے کہ پاور ڈویژن نے تجویز پیش کی ہے کہ وفاقی حکومت مشترکہ مفادات کونسل 2010 کے رولز آف پروسیجر کے شیڈول II کے مطابق اپنی اصولی منظوری/اتفاق رائے دے سکتی ہے جس کے مطابق سمری سی سی آئی کو بھیجنی ہوگی۔
دستیاب دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو سنجیدہ حکمرانی اور تجارتی چیلنجز درپیش ہیں۔ بہتر کارپوریٹ مینجمنٹ، پرائیویٹ سیکٹر کی شرکت اور وزارت توانائی کی جانب سے زیادہ نگرانی کے ذریعے کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوششوں کے اب تک مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، بلکہ صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ کمپنیوں کو 292 ارب روپے سے زائد کا مجموعی تکنیکی اور تجارتی نقصان ہوا ہے۔ جس کی کئی توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں- مثال کے طور پر تکنیکی بنیادی ڈھانچے کے مسائل، چوری اور غیر قانونی کنکشن، بلنگ اور ریونیو کی وصولی سے متعلق غیر تکنیکی نقصانات، غلط میٹرریڈنگ، وولٹیج کے اتار چڑھاؤ، آپریشنل ناکاریاں، اور ناکافی سرمایہ کاری اور دیکھ بھال وغیرہ اہم ذمہ دارعوامل ہیں۔
دستاویزات کے مطابق وفاقی حکومت نے صارفین کے لیے سستی بجلی کو یقینی بنانے کے لیے پاور سیکٹر کو مالی سال 2022 اور مالی سال 2023 میں بالترتیب 596 ارب روپے اور 535 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی۔ ان سبسڈیز کے باوجود، ٹیرف غیر مستحکم طور پر زیادہ ہیں۔ انٹر کارپوریٹ گردشی قرضہ بھی بڑھ گیا جو اس وقت 2631 ارب روپے ہے۔ سبسڈیز نے حکومت کو مالی نقصان سے دوچار کیا ہے اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور دیکھ بھال میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
اس طرح کے عوامل کی وجہ سے، وفاقی حکومت نے DISCOs کی ملکیت اور کنٹرول متعلقہ صوبائی حکومتوں کو، ان کی مرضی سے مشروط ، منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں مقامی انتظامیہ اور پولیس پر اپنے کنٹرول کی وجہ سے بجلی چوری اور بقایا جات کی وصولی کے مسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے حل کر سکتی ہیں۔ مزید برآں، ڈسکوز کو صوبائی دائرے میں لانا بجلی کے شعبے میں طاقت اور فیصلہ سازی کو تقسیم کرے گا تاکہ مقامی گورننس، کسٹمر کیئر اور جوابدہی کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔
دستاویزات کے مطابق صوبائی حکومت تقسیم کار کمپنیوں کی مینجمنٹ اور ان کے انتظامی معاملات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں کچھ ایریازدرج ذیل ہیں:
1۔ پالیسی ان پٹ اور عمل درآمد: اگرچہ بجلی کے شعبے کے لیے مجموعی پالیسی فریم ورک کا تعین سی سی آئی (وفاقی وصوبائی) کی سطح پر کیا جائے گا، صوبائی حکومتوں کو اپنے دائرہ اختیار کے لیے مخصوص اقدامات کو نافذ کرنے کی خود مختاری ہوگی۔ یہ انہیں مقامی چیلنجز سے نمٹنے اور پائیدار اور موثر بجلی کی تقسیم کو فروغ دینے کی اجازت دے گا۔
2۔ مقامی انتظامیہ اور نگرانی: صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں مقامی انتظامیہ کے ذریعے بھی تقسیم کار کمپنیوں کی نگرانی کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس میں نگرانی کی کارروائیاں، ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنانا، اور مقامی پس منظرکو سامنے رکھتے ہوئے مخصوص مسائل کو حل کرنا شامل ہوگا۔
3۔ انسداد چوری کے اقدامات:
صوبائی حکومتیں چوری کا پتہ لگانے اور روکنے کے لیے مضبوط اقدامات پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ دار ہوں گی، جیسے کہ باقاعدگی سے معائنہ کرنا، میٹرنگ کے جدید نظاموں کا استعمال، اور غیر قانونی کنکشنز کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا۔
i ریونیو مینجمنٹ: بقایا واجبات کی وصولی کو بڑھانا صوبائی حکومت کے کردار کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ وہ محصولات کی وصولی کو بہتر بنانے کے لیے حکمت عملیوں کا استعمال کریں گے، بشمول موثر بلنگ سسٹم متعارف کرانا، بلنگ کی تضادات کو دور کرنا، اور قرض کی وصولی کے موثر طریقہ کار کو نافذ کرنا۔
ii بنیادی انفراسٹرکچر کی ترقی اور دیکھ بھال:
صوبائی حکومتوں کو تقسیم کار کمپنیوں کے اندر انفراسٹرکچر کی ترقی اور دیکھ بھال کا کام سونپا جائے گا۔ اس میں ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو جدید بنانے، آلات کو اپ گریڈ کرنے اور تکنیکی نقصانات کو کم کرنے کے لیے باقاعدہ دیکھ بھال کو یقینی بنانے میں سرمایہ کاری شامل ہے۔
1۔ صارفین کی شکایات کا ازالہ کرنا: صارفین کے قریب ہونے کی وجہ سے، صوبائی حکومتیں صارفین کی معیاری خدمات کو یقینی بنانے اور شکایات سے نمٹنے کی ذمہ دار ہوں گی۔ اس میں صارفین کی شکایات کا ازالہ، مؤثر کسٹمر سروس میکانزم قائم کرنا، اور بلنگ اور میٹرنگ کے عمل میں شفافیت کو فروغ دینا شامل ہے۔
2۔ تعاون اور ہم آہنگی: صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت، ریگولیٹری اتھارٹیز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کریں گی تاکہ بجلی کی تقسیم کے نظام کے کام میں موثر ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس میں معلومات کا اشتراک، حکمت عملیوں کو ترتیب دینا، اور وسیع تر شعبہ جاتی اہداف پر تعاون شامل ہے۔
ڈسکوز کے انتظام میں صوبائی حکومتوں کی کامیابی کا انحصار ان ذمہ داریوں کو مؤثر طریقے سے انجام دینے، مناسب وسائل مختص کرنے، گورننس اور آپریشنز کے لیے شفاف اور جوابدہ میکانزم قائم کرنے کی صلاحیت پر ہوگا۔
پالیسی فریم ورک:
اوپر بیان کردہ تحفظات کی روشنی میں حکومت پاکستان نے ڈسکوز کی شیئر ہولڈنگ اور کنٹرول کو مندرجہ ذیل پالیسی فریم ورک کے تحت صوبوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے:
i ۔ وفاقی حکومت ہر صوبے میں واقع DISCOs کے شیئر ہولڈنگ کو ہر صوبائی حکومت کے ساتھ باہمی معاہدے کی بنیاد پر متعلقہ صوبائی حکومتوں کو منتقل کرے گی جس میں ہر منتقلی کی تعداد یا ترتیب کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
ii. منتقلی کے طریقوں پر وفاقی اور ہر صوبائی حکومت کے درمیان کام کیا جائے گا، بشمول دیگر
iii. منتقلی کی تجارتی شرائط
iv. ہر تقسیم کار کمپنی کے اثاثہ اور واجبات
v. ہر تقسیم کار کمپنی کی موجودہ اور مستقبل کی ذمہ داریوں کو مختص کرنے پر معاہدہ؛
vi۔ حکومت پاکستان وغیرہ کے ساتھ DISCOs کے موجودہ وعدوں پر معاہدہ
vii. موجودہ اور مستقبل کی صلاحیت کے وعدوں، ترسیل سے متعلق مسائل، بجلی کی تجارت، اور نیشنل پاور پالیسیوں اور پیداواری صلاحیت میں توسیع کے منصوبوں کی تعمیل پر معاہدہ
viii. ڈسکوز کے ماضی اور موجودہ ملازمین کے حوالے سے معاہدہ
اس کے علاوہ:
1۔ وفاقی حکومت نیپرا ایکٹ اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط اور دوسرے قوانین اگر منتقلی کے عمل کو متاثر کریں تو ان میں ضروری ترامیم کرے گی۔
2۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں منتقلی کے عمل کی انجام دہی کے لیے ضروری ریگولیٹری منظوری حاصل کریں گی۔
3۔ منتقلی کے بعد DISCOs اپنے موجودہ لائسنسنگ سسٹم اور دیگر معاہدے کے انتظامات کو اپنی متعلقہ شرائط کے مطابق جاری رکھیں گے۔