روس کا نام سن کر ایک پاکستانی کے ذہن میں شائد پہلے کچھ اور آتا ہو، لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ’’سستا تیل‘‘ ہی آتا ہے۔
تاہم پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے ایک ایسے مسئلے کی نشاندہی کی ہے جس کا اندازہ ہمیں پہلے نہیں تھا۔ وہ یہ کہ روسی خام تیل وہ معجزہ نہیں دکھا سکا جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا کیونکہ اس کے ایک بیرل سے حاصل ہونے والا پٹرول دیگر ملکوں کے خام تیل سے حاصل ہونے والے پٹرول سے کم ہے تو پھر پاکستان کو روسی خام تیل کا فائدہ کیا ہے؟
ہمیں محض پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل سے واقفیت ہے لیکن یہ سب خام تیل کو کشید کرنے کے بعد بنتے ہیں۔ خام تیل ایک جیسا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بات کافی معنی رکھتی ہے کہ یہ نکالا کہاں سے گیا۔ ہر خطے سے نکلنے والے خام تیل کی اپنی کیمیائی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی بنا پر اس کی درجہ بندی، پروسیسنگ، صفائی اور مارکیٹ میں قیمت کا تعین ہوتا ہے۔
جیسا کہ اکمل برادران، کامران اکمل، عمر اکمل اور عدنان اکمل سب ہی تو کرکٹرز، مگر تینوں کی صلاحیت اور انداز الگ الگ ہیں۔
خام تیل کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس کی کثافت (gravity) ہے جس کی پیمائش امریکن پیٹرولیم انسٹی ٹیوٹ گریویٹی پر کی جاتی ہے۔ اے پی آئی گریویٹی کے ذریعے یہ تعین کیا جاتا ہے کہ پانی کے مقابلے میں خام تیل کتنا بھاری یا ہلکا ہے۔ اگر اے پی آئی گریویٹی 10 سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ خام تیل پانی سے ہلکا ہے اور اس پر تیرے گا۔ اس کے برعکس اگر اے پی آئی گریویٹی 10 سے کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خام تیل پانی سے زیادہ بھاری ہے اور اس میں ڈوب جائے گا۔
اے پی آئی گریویٹی جتنی زیادہ ہو گی، خام تیل اتنا ہی ہلکا ہو گا اور یہ اتنا ہی قیمتی ہے۔ ہلکے خام تیل میں زیادہ ہلکے ہائیڈرو کاربن ہوتے ہیں جن سے پیٹرول اور ڈیزل کشید کرنا آسان ہوتا ہے۔ بھاری خام تیل میں زیادہ بھاری ہائیڈرو کاربنز ہوتے ہیں جن پروسیسنگ مہنگی ہوتی ہے۔
خام تیل کی دوسری اہم خاصیت اس میں سلفر کی مقدار ہے جس سے اس کے ذائقے (کھٹا یا میٹھا) اور ماحولیاتی اثرات کا تعین ہوتا ہے۔ سلفر کی 0.5 فیصد سے کم مقدار والا خام تیل ذائقے میں میٹھا ہوتا ہے۔ اس کی ریفائننگ آسان ہوتی ہے اور یہ ماحول کیلئے بھی قدرے کم نقصان دہ ہے۔ تاہم اس کی یہی خوبی اسے مہنگا بھی بناتی ہے۔
یہاں فریکشنل ڈسٹلیشن (fractional distillation) کو جاننا ضروری ہے۔ اسے کیمیائی جادو سمجھیں، جو خام تیل کو کشید کرکے اُن پیٹرولیم مصنوعات میں بدل دیتا ہے جو ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل سے لے کر جیٹ فیول تک۔ سب فریکشنل ڈسٹلیشن کے نیتجے میں بنتے ہیں۔
دراصل یہ خام تیل کو صاف کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ عام آدمی کی زبان میں یہ سمجھ لیں کہ مختلف درجہ حرارت پر تیل کو ابالا جاتا ہے جس کےنتیجے میں بننے والی مصنوعات کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1۔ لائٹ ڈسٹیلیٹ
2۔ میڈیم ڈسٹیلیٹ
3۔ ہیوی ڈسٹیلیٹ
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق لائٹ سویٹ کروڈز جیساکہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ، لوزیانا لائٹ سویٹ اور برینٹ سے عموماََ 3 فیصد گیسں، 32 فیصد لائٹ ڈسٹیلیٹ، 30 فیصد میڈیم ڈسٹلیٹ اور 35 فیصد ہیوی ڈسٹلیٹ حاصل ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس مارس اور عرب میڈیم جیسے درمیانے کھٹے خام تیل سے عموماََ 2 فیصد گیس، 24 فیصد لائیٹ ڈسٹیلیٹ، 26 فیصد میڈیم ڈسٹیلیٹ اور 48 فیصد ہیوی ڈسٹیلیٹ حاصل ہوتے ہیں۔ تاہم اصل پیداوار ریفائنری کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔
خام تیل سے کشید کی جانے والی مختلف گیسیں کیمیکل بنانے، پلاسٹک کی مصنوعات اور مصنوعی ربڑ کی تیاری میں بنیادی اجزاء کے طور پر کام آتی ہیں۔ یہ پٹرول سمیت دیگر مصنوعات میں بلینڈنگ ایجنٹ کے طور پر بھی شامل کی جاتی ہیں۔
ریفائنری اکنامکس
ریفائنری کے مالی معاملات گراس ریفائنری مارجن (GRM) سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ اصطلاح ریفائنری میں بننے والی پیٹرولیم مصنوعات کی مجموعی قیمت اور خام تیل کی قیمت کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہے۔
مثال کے طور پر ریفائنری 130 ڈالر میں ملنے والے خام تیل کے ایک بیرل سے بننے والی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت سے 140 ڈالر کماتی ہے تو ریفائنری کا مارجن 10 ڈالر فی بیرل ہوا۔
اپنا منافع بڑھانے ریفائنریز اپنی پروڈکٹ لائن میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہیں۔ مثلاََ فیول آئل پر ریفائنریز کا مارجن کم ہوتا ہے لیکن یہ پیٹرول اور ڈیزل جیسی زیادہ مارجن والی مصنوعات سے پورا کیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ موسم گرما میں مقامی ریفائنریز کو پٹرول پر 48 ڈالر فی بیرل کا مارجن حاصل ہوا جو گزشتہ پانچ سال کی اوسط سے چھ گنا زیادہ ہے۔ ڈیزل پر مارجن تقریباً 58 ڈالر فی بیرل رہا جو پانچ سالہ اوسط سے تقریباََ چار گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح پٹرول اور ڈیزل پر فی بیرل اوسط ریفائنری مارجن بالترتیب ساڑھے 7 ڈالر اور 12.4 ڈالر تک رہا۔
انڈسٹری کے اندرونی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پرافٹ کو بتایا کہ “خام تیل میں فرنس آئل جتنا کم ہو گا اتنا ہی بہتر ہے۔ لائٹ اور میڈیم ڈسٹیلیٹ کی ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ اس میں ریفائننگ آسان اور منافع زیادہ ہوتا ہے۔ ڈیزل، مٹی کا تیل اور جیٹ فیول گیم چینجرز ہیں اور ان سے بآسانی 10 سے 15 ڈالر تک پرافٹ مارجن مل جاتا ہے۔‘‘
پاکستان کی تیل کی درآمدات
آئیے خام تیل کی درآمد کو سامنے رکھتے ہوئے اس بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) کے مطابق جون 2022ء تک پاکستان نے سب سے زیادہ 56 فیصد خام تیل متحدہ عرب امارات، 34 فیصد سعودی عرب اور 4 فیصد کویت سے درآمد کیا۔
اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ روس ہے جہاں سے خام تیل کی درآمد رواں سال شروع ہوئی۔ جوہری طور پر خام تیل کی جانچ اور پرکھ پیٹرولیم ٹیسٹنگ لیبارٹری میں کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ ایک بیرل خام تیل میں ڈسٹلیٹس کی مقدار کتنی ہے۔
اسی جانچ کے تحت مختلف مقامات سے نکلنے والے خام تیل کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔ جیسا کہ مربن (یو اے ای)، اپر زخوم (یو اے ای)، داس (یو اے ای)، قطر میرین، الشاہین (قطر)، عمان بلینڈ، عرب لائٹ (سعودی عرب) اور یورال (روس)۔ ہم دیگر روسی خام تیل جیسا کہ سوکول، ای ایس پی او ایکسپورٹ، وِٹیاس اور سائیبرین لائٹ کو بھی مدنظر رکھیں گے جبکہ قطری خام تیل کو بھی شامل کیا گیا ہے کیونکہ ذرائع کے مطابق پاکستانی ریفائنریز اس کا استعمال کرتی رہی ہیں۔
یہ تحقیق مختلف اقسام کے خام تیل کی کیمائی ساخت اور خصوصیات کو سمجھنے کیلئے اہم ہے۔
مذکورہ بالا خصوصیات کی بنیاد پر خام تیل کی صلاحیت جتنی زیادہ ہو گی، ڈسٹلیٹ کی متوقع پیداوار اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کون سا خام تیل درآمد کرتا ہے۔ لیکن روسی خام تیل سے آخر کیا مسئلہ ہے؟
پاکستان ریفائنری کے سی ای او زاہد میر کا کہنا ہے کہ روسی خام تیل کی پیداوار (پٹرولیم مصنوعات) عرب خام تیل سے کم ہے۔ تاہم یہ فرق ایک ریفائنری سے دوسری ریفائنری میں مختلف ہوتا ہے جو ہر ریفائنری کے پاس موجود ٹیکنالوجی اور سہولیات پر منحصر ہے۔
واضح رہے کہ ہم روسی یورال کی بات کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان نے وہی درآمد کیا ہے۔ پاکستان نے یورال اس لیے خریدا کیونکہ اس کی قیمت کم تھی۔ تاہم دیگر روسی خام تیل بھی کم از کم اُس وقت تک عرب خام تیل سے سستے مل رہے تھے جب پاکستان نے یورال کا سودا کیا۔
14 اگست سے شروع ہونے والے ہفتے تک روسی اورل کا ایک بیرل یو اے ای مربن اور عرب لائٹ کے ایک بیرل کے مقابلے میں بالترتیب 15 سے 20 ڈالر سستا تھا جبکہ روسی سوکول اور ای ایس پی او بھی عرب خام تیل سے 10 ڈالر سے 12 ڈالر سستے تھے۔
معاشی تجزیہ کار عمار خان بتاتے ہیں کہ ادائیگیوں کے پیچیدہ عمل کی وجہ سے مالیاتی چارجز بھی زیادہ ہیں جس میں متعدد کرنسیوں کو تبدیل کرنا پڑتا ہے جیسے کہ پاکستانی روپے کو امریکی ڈالر میں، پھر چینی یوآن میں، اور آخر میں روسی روبل میں۔
“ایک عام آئل لیٹر آف کریڈٹ کے لیے، آپ کو مسابقتی نرخوں کی پیشکش کرنے والے کسی بھی بینک کے ساتھ اسے طے کرنے کی آزادی ہے۔ اس کے لیے، آپ ایک دو چینی بینکوں تک محدود ہیں جو اپنی خدمات کے لیے ایک پریمیم لگائیں گے۔‘‘
پاکستانی ریفائنریز بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ کا خام تیل استعمال کرتی ہیں کیونکہ وہ فاصلے کے لحاظ سے قریب ترین ہے۔ کم فریٹ چارجز اور آسان رسائی عرب خام تیل کو بہ نسبت روسی خام تیل کے کسی بھی پاکستانی ریفائنری کیلئے زیادہ قابل عمل بناتے ہیں۔