اسلام آباد: عبوری حکومت نے چینی کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے، پاکستان کے چینی کے ذخائر کم ہو کر محض 23 لاکھ میٹرک ٹن رہ گئے ہیں، جو اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
یہ انکشافات کابینہ کی نئی تشکیل شدہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے حالیہ اجلاس کے دوران سامنے آئے۔ اس انکشاف سے ان خدشات کو تقویت ملی کہ شوگر انڈسٹری اور سابق حکومت نے کھپت کو کم کرنے کیلئے پیداوار زیادہ کی جس سے ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کا مارجن پیدا ہوا۔
جنوری کے اس دعوے کے برعکس کہ ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن برآمد کرنے کے بعد بھی نومبر 2023ء تک چینی کا دو ماہ کا فاضل ذخیرہ دستیاب ہو گا، ای سی سی کو بتایا گیا کہ پاکستان کو سیزن شروع ہونے سے قبل ہی چینی کے ذخیرے میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ موجودہ کھپت کی شرح پر 13 لاکھ ٹن کے سرپلس کا تخمینہ نومبر کے لیے ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ پیشن گوئی کی گئی تھی۔
15 اگست 2023 کو بتایا گیا کہ صرف 2.27 ملین میٹرک ٹن چینی سٹاک میں باقی ہے جو اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل بمشکل مقامی استعمال کی ضروریات کو پورا کرے گی، اجلاس کو بتایا گیا کہ ماہانہ چینی کی کھپت 6 لاکھ 41 ہزار 584 میٹرک ٹن ہے۔
یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شہری پہلے ہی بجلی کے بے تحاشہ بلوں اور اب چینی کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔ قبل ازیں حکومت کی جانب سے ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے سے ناصرف فوری طور پر قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ متوقع کمی کی وجہ سے پیٹرول کی مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔