81 فیصد تیل، 69 فیصد گیس ختم، نئے ذخائر کی تلاش کیلئے طویل مدت بعد تین کمپنیوں کو لائسنس جاری

188

لاہور: پاکستان نے ایک طویل وقفے کے بعد تیل اور گیس کی تلاش کیلئے نیا منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد غیر استعمال شدہ ہائیڈرو کاربن کے وسائل کی دریافت کرنا ہے۔

پیٹرولیم ایک اہم اقتصادی شعبہ ہے جس کی مسلسل بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ توانائی کی طلب و رسد میں توازن رہے۔

خام تیل اور قدرتی گیس کے کل قابل بازیافت وسائل خطرناک حد تک ختم ہو چکے ہیں۔ قوم تیل کے کل ذخائر کا تقریباً 81 فیصد اور مجموعی گیس کے ذخائر کا 69 فیصد سے زائد استعمال کر چکی ہے۔ پاکستان کے پاس تقریباََ ایک ارب 24 کروڑ 50 لاکھ بیرل خام تیل کے ذخائر تھے جن میں سے 30 جون 2022 تک تقریباََ ایک ارب 12 لاکھ بیرل استعمال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران خام تیل کی مقامی پیداوار 73 ہزار 436 بیرل یومیہ رہی جو ملک کی کل سالانہ تیل کی کھپت کا محض 17 فیصد ہے۔

خام تیل کے نئے ذخائر دریافت نہ ہونے کی صورت میں تیل نکالنے کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے 23 کروڑ 30 لاکھ بیرل کے بقیہ مقامی ذخائر آئندہ 8 یا 9 سالوں میں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔

اسی طرح قدرتی گیس کے کل قابل بازیافت وسائل 63.24 ٹریلین کیوبک فٹ (ٹی سی ایف) تھے جن میں سے 43.73 ٹریلین کیوبک فیٹ استعمال ہو چکے ہیں اور 19.51 ٹی سی ایف گیس کے ذخائر باقی ہیں۔ اس وقت قدرتی گیس کی پیداوار 3 ہزار 390 ملین کیوبک فٹ یومیہ ہے۔ پیداوار کی موجودہ شرح کے ساتھ مقامی قدرتی گیس مزید 15 برس یا اس سے زائد عرصے تک ملکی ضروریات پوری کر سکے گی۔

تاہم وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کی پاکستان انرجی آؤٹ لُک رپورٹ 30-2021ء میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق 2030ء تک تیل کی مقامی پیداوار کم ہو کر 51 ہزار 29 بیرل یومیہ پیداوار اور گیس ایک ہزار 627 ایم ایم سی ایف ڈی رہ جائے گی۔

ماضی میں کی گئی مختلف سٹڈیز کے مطابق پاکستان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو زیادہ تر بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا میں واقع ہیں۔ یو ایس ایڈ کی ایک تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ صرف سندھ طاس میں 14 ارب بیرل خام تیل تکنیکی طور پر قابلِ دریافت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خام تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار میں اضافے کی نمایاں صلاحیت موجود ہے۔

تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ناصرف تیل و گیس کی تلاش اور پیداواری سرگرمیوں میں مسلسل کمی آئی ہے بلکہ نئے ذخائر کی تلاش کا کام متعلقہ علاقوں میں موثر طور پر اور بر وقت نہیں کیا گیا۔

حکومت نے تین پٹرولیم کمپنیوں کے 11 لائسنس بحال کر دیے ہیں جو اپنی گزشتہ لائسنسنگ کی مدت کے دوران پرعزم طور پر کام کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ ایک کمپنی جسے 2007 میں لائسنس جاری ہوا تھا، نے 16 سالوں میں ایک بھی تیل کا کنواں نہیں کھودا لیکن اسے ایک اور توسیع دے دی گئی ہے۔

دوسری طرف بنیادی طور پر عالمی اقتصادی حالات اور پاکستان میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پیٹرولیم رائٹس اور تلاش کے لائسنس کے حصول میں ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوری میں تیل اور گیس کے 18 بلاکس میں سے صرف تین بلاکس کی بولی لگائی گئی جس کے نتیجے میں دو بلاک آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) اور ایک نجی سرمایہ کار کو دیے گئے، باقی 15 بلاکس کی تاحال بولی نہیں لگائی گئی۔

دریں اثنا حکومت نے 15 نومبر 2023ء تک مزید 10 پیٹرولیم بلاکس میں ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کے لیے بین الاقوامی اور ملکی سرمایہ کاروں سے بولیاں طلب کی ہیں۔ ان میں سارونا ویسٹ، کوٹرا ایسٹ، اور قلات نارتھ شامل ہیں، جو بلوچستان کے طاس میں واقع ہیں۔ یہ گیس کے 78 ٹریلین کیوبک فیٹ کے ساتھ سب سے بڑے ذخیرے کی دریافت ہے جبکہ تیل کا 87 کروڑ بیرل کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

سندھ کے بلاکس میں گمبٹ ٹو، مرادی، ملیر ٹو، ساون جنوبی، مٹیاری اور زمزمہ ویسٹ شامل ہیں۔ یہ تمام بلاک زیریں سندھ طاس میں واقع ہیں جن کا تخمینہ 16 کروڑ بیرل تیل اور 24.6  ٹریلین کیوبک فٹ گیس ہے۔ رچنا ٹو بلاک پنجاب (وسطی سندھ طاس) میں واقع ہے۔ انڈس بیسن 20 کروڑ بیرل تیل اور 196 ٹی سی ایف گیس کے وسائل کا حامل ہے۔

اس سے قبل نومبر 2022ء میں اوجی ڈی اسی ایل ، ماڑی پیٹرولیم اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے جوائنٹ وینچر کو چار نئے ایکسپلوریشن بلاکس دیئے گئے تھے۔ یہ بلوچستان کے جنوبی پشین، شیگالو، تنیشپا اور لوگائی بلاکس ہیں۔

او جی ڈی اسی ایل اور پاکستان آئل فیلڈز لمیٹڈ نے مئی میں بلوچستان میں چاہ بالی بلاک کے لیے ایکسپلوریشن لائسنس حاصل کیا تھا جبکہ تین نئے ایکسپلوریشن بلاکس پی پی ایل اور یونائیٹڈ انرجی پاکستان کے جوائنٹ وینچر کو اور دو بلاکس اپریل 2022 میں مسابقتی بولی پر ماڑی پیٹرولیم کو دیے گئے تھے۔

سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بلاکس میں 2 ہزار 323 ارب بیرل تیل کے ساتھ ساتھ 3 ہزار 778  ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں، تاہم پیچیدہ جغرافیے، پانی کے محدود وسائل، سکیورٹی خدشات اور ماحولیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے شیل (shale) گیس تیار کرنا مہنگا ہے۔

حکومت نے اگلے سال مقامی اور بین الاقوامی بولی کے ذریعے آف شور بلاکس کی نیلامی کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ اس تناظر میں سندھ طاس اور مکران طاس میں واقع بیس آف شور پیٹرولیم بلاکس کی مارکیٹنگ کے لیے عالمی کمپنیوں سے ستمبر میں درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک بڑا سمندری طاس ہے جس میں ہائیڈرو کاربن کی دریافت کی کافی صلاحیت موجود ہے، مگر یہ اب تک بڑی حد تک غیر دریافت شدہ ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here