روپے کی تاریخی گراوٹ اور مہنگائی، آگے خطرناک موڑ ہے!

158

لاہور: گزشتہ تقریباََ ڈھائی سال سے پاکستان کو شرح مبادلہ اور قیمتوں کے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔ شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ کا یہ دور مئی 2021 میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ تب ڈالر تقریباََ 150 روپے پر تھا۔ تقریباََ 30 ماہ بعد ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے اور اب بھی دباؤ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

2008 سے 2019 تک ڈالر کی قیمت 75 روپے سے 150 روپے تک دگنی ہونے میں 10 سال لگے۔ مئی 2021 سے اب تک اسے دُگنا ہونے میں ڈھائی سال سے بھی کم وقت لگا۔

ساتھ ہی مہنگائی دیکھیں تو کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق یہ مئی 2021 کے چند ماہ بعد ہی آسمان سے باتیں کرنے لگی اور اس میں اَب تک مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ تقریباً ڈھائی سال سے مہنگائی میں اس مسلسل اضافے کا سبب کیا ہے؟ (اس مہنگائی میں کبھی کبھی یوں لگا کہ صورتحال مستحکم ہے اور پریشانی کی کوئی بات نہیں) اور یہ کہ اتنی طویل مدت تک قیمتوں پر دباؤ میں یہ مسلسل اضافہ کیوں؟

ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے تھوڑا سا تکنیکی ہونا پڑے گا۔ اپریل 2021، فروری 2022 اور ستمبر 2022 کی آئی ایم ایف کی پاکستانی معیشت میں سرمائے کی فراہمی سے متعلق رپورٹس دیکھیں بلکہ مجموعی طور پر سرمائے کی فراہمی کی صورتحال پر نظر ڈالیں۔ جسے ایم-ٹو کہا جاتا ہے، نیز نیٹ ڈومیسٹک ایسٹس (این ڈی اے) اور نیٹ فارن ایسٹس (این ایف اے) کو لیں اور ان تخمینوں کو ایکسل شیٹ میں ڈالیں۔ ان میں سے ہر ایک تخمینے کے نیچے سٹیٹ بینک کی طرف سے اسی مدت کے لیے رپورٹ کردہ ڈیٹا لیں اور حقیقت اور پیشگوئی کے درمیان فرق کا حساب لگائیں۔

اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح معیشت میں استحکام آئے گا اور کیسے معیشت پر بیرونی دباؤ کو ختم کرنے کے لیے سرمائے کی فراہمی بڑھے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

آئی ایم ایف نے ہر سٹاف رپورٹ میں سرمائے کی فراہمی میں اضافے کی ایک خاص سطح کا تخمینہ لگایا لیکن اس کے تخمینوں کا زیادہ تر انحصار بھی مجموعی زرمبادلہ ذخائر کے بڑھنے پر تھا۔

حقیقت میں اس کے بالکل برعکس ہوا۔ اگر آپ حقیقت اور پیشگوئی کا فرق دیکھیں تو معلوم ہوا گا کہ نیٹ فارن ایسٹس تیزی سے گر رہے ہیں جبکہ نیٹ ڈومیسٹک ایسٹس تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ اس کے برعکس ہے جس کا تصور متوقع استحکام کیلئے کیا گیا تھا۔ اور یہ انحراف ناصرف اپریل 2021 اور فروری 2022 کی سٹاف رپورٹس میں شامل دونوں ادوار میں جاری رہتا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ ستمبر 2023 کی رپورٹ کے وقت تک پروگرام کے اختتام (Q4FY23) کے مطابق، ہمیں کہاں ہونا چاہیے اور ہم اصل میں کہاں تھے، کے درمیان فرق اتنا بڑا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اسے کیسے درست کیا جائے گا۔

اب تازہ ترین سٹینڈ بائی معاہدے کے لیے آئی ایم ایف حکام کی رپورٹ دیکھیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ مالیاتی مجموعوں کے تخمینے استحکام کی طرف واپسی کے راستے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ پچھلی تین سٹاف رپورٹس میں NFAs کے ایک یا دو کے اندر مثبت ہونے کا تصور کیا گیا تھا۔ حکومت سے جو کچھ کرنے کو کہا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہولڈنگ پیٹرن میں چلے، جس سے پیسے کے مجموعے میں مزید بگاڑ کو روکا جائے۔

یہ اس معاملے کا نچوڑ ہے۔ ادائیگیوں کے توازن اور مالی کھاتوں میں سنگین خرابیاں مالیاتی مجموعوں کو استحکام کی طرف ان کے متوقع راستے سے بہت دور پھینک رہی ہیں۔ مالیاتی مجموعوں میں یہ مہلک حرکت بدلے میں، افراط زر اور شرح مبادلہ کے دباؤ کو ہوا دے رہی ہے۔ قدر میں کمی کے لامتناہی دور دباؤ کو روکنے یا ختم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں، کیونکہ ہر قدر میں کمی کے بعد بھی بنیادی حرکتیں مزید دباؤ پیدا کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کوئی “مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ” نہیں ہے، کیونکہ مارکیٹ خود شکستہ ہو چکی ہے، ڈالر کو ترس رہی ہے، اور تازہ پیدا ہونے والی گھریلو لیکویڈیٹی کے سب سے بڑے دعویدار کے طور پر ریاست کو گھیرے ہوئے ہے۔ اکیلے مانیٹری آپریشنز یعنی شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی اس رجحان کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے، جب تک کہ ان کے ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ کی تازہ آمد اور مالیاتی اکاؤنٹ میں بہت زیادہ کمی نہ ہو۔

اب صرف روایتی آئی ایم ایف کی امداد کے سہارے استحکام کے راستے کا تصور کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان میں عام طور پر شرح میں اضافہ، قدر میں کمی، نئے ٹیکس اور اخراجات میں کمی شامل ہوتی ہے۔ لیکن اس بار مطلوبہ ایڈجسٹمنٹ کا پیمانہ اتنا بڑا ہوگا کہ یہ ممکنہ طور پر ریاست اور معیشت کی سالمیت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اس میں سال لگیں گے، لیکن چاہیں تو یہ اب بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے سٹیٹ بینک کو ڈالر کی انٹربینک مارکیٹ کو خالی رکھ کر ذخائر بنانا ہوں گے، جب کہ ریاست کو ٹیکس کی ایک بڑی کوشش کیلئے متحرک ہونا ہوگا جو اس نے کئی دہائیوں سے نہیں کی، یا پھر باہر سے ہم پر زرمبادلہ کی ایک نئی بارش آئے۔ مہنگائی اور روپیہ کی قدر میں کمی کی صورت ایسے ہی نکل سکتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here