شرح سود میں مزید اضافہ متوقع: کیا اس سے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے؟

130

لاہور: سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کی جانب سے شرح سود میں 300 بیسز پوائنٹس (بی پی ایس) تک اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح میں اضافے کی توقع ہے جو فی الحال 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے۔

سٹیٹ بینک ذرائع کے مطابق ایم پی سی کا اجلاس 14 ستمبر کو منعقد ہو گا۔ تاہم مرکزی بینک کو ‘ہنگامی’ اجلاس کا انعقاد کرکے اپنی کلیدی پالیسی کی شرح میں تبدیلیوں کا اعلان کرنے کی آزادی بھی حاصل کی ہے جیساکہ اس نے جون میں کیا تھا۔

مارکیٹ میں زیر گردش خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک اس بار مذکورہ تاریخ کا انتظار کرے گا اور ہنگامی اجلاس کا امکان نہیں ہے۔

جے ایس گلوبل میں ریسرچ کی سربراہ امرین سورانی نے پالیسی ریٹ میں 100 بی پی ایس اضافے کی پیش گوئی کی، انہوں نے افراط زر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شرح سود میں متوقع اضافہ مہنگائی کی وجہ سے ہوگا جو فی الوقت تقریباً 28 سے 29 فیصد ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) میں ریسرچ کے سربراہ طاہرعباس نے 100 سے  150 بی پی ایس کے اضافے کی توقع ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح زیادہ رہنے کی توقع ہے۔ مزید برآں، کرنسی کی قدر میں کمی بھی سٹیٹ بینک کو شرح سود کا گراف اوپر لے جانے پر مجبور کر سکتی ہے۔

قبل ازیں اے ایچ ایل نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اگست میں افراط زر میں بڑا اضافہ متوقع ہے جو جولائی کی 28.3 فیصد سے زیادہ رہے گی۔

حیران کن طور پر اسماعیل اقبال سکیورٹیز لمیٹڈ کے ریسرچ کے سربراہ فہد رؤف نے مختلف نقطہ نظر اپنایا، انہیں شرح سود میں کسی بڑے اضافے کی توقع نہیں، ان کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک شرح سود میں 100 بی پی ایس کا اضافہ کر سکتا ہے تاکہ یہ عندیہ دیا جا سکے کہ افراط زر سے متعلق چیلنجز موجود ہیں۔

نیکسٹ کیپیٹل میں ریسرچ کے سربراہ شہاب فاروق نے 200 بی پی ایس کے اضافے کی توقع کی، انہوں نے کہا کہ مستقبل کی حقیقی شرح سود اَب بھی منفی ہے جبکہ ستمبر میں افراط زر کی شرح 30 فیصد سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔

مارکیٹ کے ایک اور تجزیہ کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 200 سے 300 بی پی ایس کا اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے اس کی وجوہات پاکستانی روپیہ کی قدر میں مسلسل کمی اور مہنگائی کو قرار دیا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ شرح سود میں اضافہ پاکستان کی معاشی پریشانیوں کا قطعاً حل نہیں، “یہ ایک مالی مسئلہ سے بڑھ کر ہے، شرح سود میں اضافے سے کچھ حل نہیں ہو گا اور نہ ہی سست معاشی ماحول میں زیادہ ٹیکس سے مسئلہ حل ہو گا۔”

یہاں پس منظر کے طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ 26 جون 2023ء کو سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ایک ہنگامی اجلاس میں شرح سود کو 100 بیسز پوائنٹس بڑھا کر 22 فیصد کر دیا تاکہ حقیقی شرح سود کو مستقبل کی بنیاد پر مضبوطی سے برقرار رکھا جا سکے اور پھر 31 جولائی کو ایم پی سی نے پالیسی ریٹ 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر حکومت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ آئندہ ایم پی سی اجلاسوں میں پالیسی ریٹ مزید بڑھانے کے لیے تیار ہے جب تک کہ افراط زر نیچے کی آتی۔

تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ آخری لمحات میں معاہدہ کرنے کے باوجود، پاکستان بلند افراط زر کے مسائل میں گھرا ہوا ہے جو جولائی 2023 میں 28.3 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here