اسلام آباد: پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان سے فولاد کی بے تحاشہ سمگلنگ نے پاکستان کے پہلے ہی بدحالی کے شکار سٹیل سیکٹر کو جکڑ رکھا ہے۔
اس شعبے کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ سمگل شدہ سٹیل کی آمد سے مقامی صنعت کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے اور معاشی مستقبل کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسرز (پی اے ایل ایس پی) نے حکام کی جانب سے سمگلنگ کی لعنت سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو متعدد بار درخواستوں کے باوجود سمگلنگ عروج پر ہے جس سے ٹیکس آمدن اور غیر ملکی زرمبادلہ کی مد میں 25 ارب روپے سے زائد سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ سالانہ تقریباً 5 لاکھ میٹرک ٹن سٹیل ایران اور افغانستان سے پاکستان میں غیر قانونی طور پر پہنچائی جاتی ہے، جو پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور معیشت کو غیر مستحکم کرنے کا سبب ہے ۔
پی اے ایل ایس پی کے سیکرٹری جنرل واجد بخاری نے خبردار کیا ہے کہ سٹیل کی سمگلنگ ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے، کرنسی کی قدر کو کم کر رہی ہے، اور مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی سے ہمارے حال اور مستقبل کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔
سمگلنگ کا ایک اہم نتیجہ اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی شرح پر اس کا اثر ہے، جس کے نتیجے میں انٹربینک شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہاں کچھ مالیاتی ماہرین انٹربینک ریٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں اضافے کا مشورہ دیتے ہیں، پی اے ایل ایس پی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات نادانستہ طور پر قانونی اور ٹیکس ادا کرنے والے شعبے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور سمگلنگ کو بڑھا سکتے ہیں۔
سٹیل کی بے لگام سمگلنگ پاکستانی روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کا باعث بنی ہے جس سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شرح خطرناک حد 325 تک پہنچ گئی۔ جیسے جیسے سمگلنگ کی کارروائیاں فروغ پا رہی ہیں، انٹربینک سیکٹر کے اندر جائز مینوفیکچررز جدوجہد کر رہے ہیں جس سے مارکیٹ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
واجد بخاری کا کہنا ہے کہ “سمگلنگ کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا ہی واحد طریقہ نہیں، یہ ہمارے ملک کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمارا مالی استحکام اور نسلوں کی خوشحالی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔”
معاشی نقصان سے قطع نظر، سمگلنگ قانون کی حکمرانی اور احتساب کے عمل کیلئے بھی چینلج ہے۔ سرکاری حکام کی ملی بھگت اور بدعنوانی اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ پی اے ایل ایس پی جامع اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے، جیسا کہ سٹیل کی درآمدات سمندری راستے سے کرنا، نگرانی بڑھانا، ڈیجیٹائزیشن اور سمگلنگ میں ملوث فراد کیلئے سخت سزائیں اور جرمانے۔
اس غیر قانونی تجارت کے ڈانڈے دہشت گردی تک جا ملتے ہیں جس سے عالمی خدشات بڑھتے ہیں اور پھر معاملہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) تک جا پہنچتا ہے۔ سمگلنگ کے بحران نے سٹیل کی مقامی صنعت کو خاص طور پر بلوچستان میں شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ سمگل شدہ، بغیر ٹیکس کے ایرانی بلٹس (billets) بڑی مارکیٹ میں کثرت سے موجود ہیں جس سے مقامی پروڈیوسرز کو نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان کی سرحدی چوکیوں پر سکیننگ سہولیات کی کمی نے سمگلنگ کے نیٹ ورک کو تقویت دی ہے۔ سرکاری مداخلت اور بدعنوانی کے الزامات خدشات کو مزید گہرا کرتے ہیں۔