پشاور: بینک آف خیبر (بی او کے) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور مینجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) کے مابین گزشتہ دو سالوں سے اختیارات کیلئے جاری کھینچا تانی نے اس کی مالیاتی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق 25 اگست کو ہونے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں ایم ڈی کی کارکردگی، ڈیجیٹل بینکنگ پالیسی، انسانی وسائل کے مسائل، بورڈ اور کمیٹی کی تجاویز اور ششماہی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔
کارپوریٹ گورننس کے ضابطے کے تحت ایم ڈی کی کارکردگی کا جائزہ سالانہ بنیادوں پر لیا جانا چاہیے لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران چیئرمین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹرز نے اپنی حیثیت کے مطابق ایم ڈی کی کارکردگی جانچنے کی کوشش کی لیکن انہیں اِس کی اجازت نہیں ملی جس کی وجہ سے مجموعی طور پر بینک کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
ذرائع نے بتایا کہ بورڈ اجلاس کے زیادہ تر فیصلے پہلے اتفاق رائے سے ہوتے تھے تاہم بورڈ اور ایم ڈی کے درمیان اختلافات کے باعث زیادہ تر فیصلے حکومت کے اکثریتی ارکان کر رہے ہیں۔
بورڈ کی شدید مخالفت کے باوجود ایم ڈی نے مختلف مَن پسند افراد کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جن میں اسلامک بینکنگ کے قائم مقام گروپ سربراہ بھی شامل ہیں، جنہیں 30 جون 2023ء تک قائم مقام عہدہ دیا گیا تھا۔ موجودہ قائم مقام سربراہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے کاروباری ترقی اور دیگر مقاصد کو پورا نہیں کیا جا سکا۔
ذرائع کے مطابق بینک آف خیبر کی نئی کمپنی سیکرٹری کے تقرر میں ایم ڈی نے ضابطے کی خلاف ورزی کی۔ کمپنی سیکرٹری کو کمرشل بینکنگ کا کوئی تجربہ ہے اور نا ہی کارپوریٹ گورننس قوانین کا علم۔ وہ پہلے کے ای سولر میں قانونی امور کی انچارج رہی ہیں۔
اِس حوالے سے بینک انتظامیہ کو پرافٹ کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔
مالیاتی کارکردگی
بینک آف خیبر نے 2023ء کی پہلی ششماہی (جنوری تا جون) میں تقریباً 169 کروڑ روپے کا بعد از ٹیکس منافع کما کر شاندار مالیاتی سنگ میل عبور کیا۔ یہ کامیابی گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ تاہم اس خاطر خواہ شرح نمو کے باوجود یہ بات قابل توجہ ہے کہ بینک کا خالص منافع کا مارجن (net profit margin) چھ فیصد رہا جو بینکنگ انڈسٹری کی اوسط 200 فیصد کی مسابقت میں نا ہونے کے برابر ہے۔
جون 2023ء میں بینک آف خیبر کے آپریٹنگ اخراجات 373.6 کروڑ روپے رہے جو جون 2022ء میں 307.6 کروڑ روپے تھے۔
ذرائع کے مطابق بینک آف خیبر کا 169 کروڑ روپے منافع بھی اس کی اچھی مالیاتی کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسے 100 کروڑ روپے صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری کھاتوں سے قبل از وقت رقم نکلوانے کی وجہ سے جرمانے کی مد میں حاصل ہوئے جبکہ 60 کروڑ روپے غیر ملکی کرنسی کے کاروبار سے حاصل ہوئے۔ دوسری صورت میں بینک کو ششماہی بنیادوں پر 20 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔
بیشتر اعلیٰ افسران کی جانب سے دوسرے بینکوں میں اپنے کھاتے رکھنے پر بورڈ ارکان کے اعتراضات اور آڈٹ کے باوجود مذکورہ افسران نے تاحال اپنے کھاتے بینک آف خیبر میں منتقل نہیں کیے۔
مالیاتی کارکردگی کی رفتار
بینک آف خیبر کے 2011ء سے 2022ء تک کے مالی سفر کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس پورے عرصہ میں ناصرف منافع میں اضافہ ہوا بلکہ یہ تسلسل بغیر رکاروٹ یا کمی کے برقرار رکھا گیا۔ تاہم دو قابل ذکر واقعات ایسے تھے جب بعد از ٹیکس سالانہ منافع میں کمی واقع ہوئی۔
پہلی بار 2017ء میں سالانہ بنیادوں پر بعد از ٹیکس منافع میں غیر متوقع طور پر 11 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اگلے سال 2018ء میں بینک کو دوبارہ مندی کا سامنا کرنا پڑا اور بعد از ٹیکس منافع میں 74 فیصد کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ تاہم بینک جلد واپسی میں کامیاب رہا اور 2019ء اور 2020ء میں منافع میں بہتری کے آثار دکھائی دینے لگے۔
2021ء میں ایک بار پھر بعد از ٹیکس منافع 49 فیصد کم ہو کر 110.4 کروڑ روپے ریکارڈ کیا گیا اور آئندہ سال مزید 59 فیصد کم ہو کر 45.5 کروڑ روپے رہا۔ دلچسپی کا ایک اضافی پہلو یہ ہے کہ 2022ء میں سات سالوں میں پہلی بار بینک آف خیبر کا خالص منافع کا مارجن کم ہو 5 فیصد تک گر گیا۔
منافع میں کمی کیوں ہوئی؟
منافع میں کمی کے ساتھ بینک کے انتظامی اخراجات بڑھتے گئے۔ مالی سال 2022ء میں بینک کے غیر سودی اخراجات 530 کروڑ روپے سے بڑھ کر 671 کروڑ روپے ہو گئے۔ انتظامی اخراجات میں اضافہ کی مختلف وجوہات تھیں۔ بشمول افراط زر کے اثرات، نئی شاخوں کا قیام اور صلاحیت سازی کے اقدامات۔
اس عرصے کے دوران بینک کے برانچ نیٹ ورک نے خاطر خواہ ترقی کی۔ 2021ء میں شاخوں کی تعداد میں 21 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 179 سے بڑھ کر 216 ہو گئیں۔ اس رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے سال 2022ء میں برانچ نیٹ ورک میں مزید 7 فیصد توسیع دیکھنے میں آئی اور مجموعی تعداد 231 ہو گئی۔
مزید برآں بینک کو سرمایہ کاری کے شعبے میں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ سود کی شرح میں اچانک نمایاں اضافے کی وجہ سے بینک کو سرکاری سیکیورٹیز پر 207 کروڑ روپے کا مجموعی مارک ٹو مارکیٹ (MTM) نقصان ہوا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ’’مارک ٹو مارکیٹ‘‘ ایک بنیادی اکاؤنٹنگ پریکٹس ہے جس میں کسی اثاثے کی قیمت اس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کی عکاسی کرنے کے لیے دوبارہ ترتیب دینا شامل ہے جس کا انحصار مارکیٹ کے موجودہ حالات پر ہوتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ایک مقررہ وقت پر اثاثہ فروخت کیا جائے تو اس سے کیا حاصل ہو گا۔
بینک آف خیبر کا مالک کون ہے؟
خیبرپختونخوا حکومت کے پاس 70.2 فیصد اکثریتی حصص ہیں جبکہ اسماعیل انڈسٹریز لمیٹڈ کے پاس 24.4 فیصد ہیں۔ یہ ملک کے تین صوبائی سرکاری کمرشل بینکوں میں سے ایک ہے۔