ہم ماضی میں سرابوں کا پیچھا کرتے رہے، معیشت ایسے نہیں سنبھلے گی! 

110

لاہور: پچھلی بار جب کسی آرمی چیف نے تیزی سے بگڑتی معیشت کے دوران کاروباری برادری سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں سامنے آنے والی شکایتوں کو دور کرنے کیلئے پالیسیاں اور حکمت عملیاں وضع ہوتے دیکھیں گئیں۔ یہ اکتوبر 2019ء تھا جب ملک کو آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ روپے کی قدر تیزی سے گرنا شروع ہو گئی اور شرح سود میں اضافہ ہوا گیا۔ 

اس وقت ایک اہم پالیسی کا اعلان کیا گیا اور وہ تھی ایمنسٹی سکیم۔ اس کا مقصد ہائوسنگ اور تعمیراتی سیکٹر کو معیشت کیلئے متحرک قوت بنانے کے لیے رئیل اسٹیٹ کو فروغ دینا تھا۔ اس سکیم  کا معیشت کو تو کچھ فائدہ ہوا یا نہیں، البتہ پلاٹوں کی فائلیں بیچنے والوں کو خوب فائدہ ہوا۔ تعمیراتی سامان کی فروخت کو بھی مختصر مدت کیلئے بڑھاوا ملا، جسے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کے طور پر پیش کیں۔

ایک بار پھر ہم اُسی نکتے پر واپس آ گئے ہیں۔ اِس بار آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی اور لاہور میں تاجروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جنرل باجوہ نے جتنی شکایات کو نمٹا دیا تھا اس سے کہیں زیادہ شکایات کا انبار موجودہ آرمی چیف کے سامنے لگ گیا تھا۔ تاہم یہ جو آئندہ مہینوں میں معاشی استحکام کے بڑے وعدے کیے جا رہے ہیں وہ شکوک و شبہات کی گرد میں لپٹے ہوئے ہیں۔

مثال کے طور پر سب سے پہلے جو رقوم پیش کی جا رہی ہیں وہ عجیب لگتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے شرکاء کا کہنا ہے کہ کان کنی، معدنیات اور زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 25، 25 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا ذکر کیا گیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور آرمی چیف کو ملنے والے افراد کی فراہم کردہ رپورٹس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی طرح کے 10 ارب ڈالر کے ڈپازٹس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

اس تناظر میں غور کریں کہ 50 ارب ڈالر گزشتہ 30 سالوں میں پاکستان میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا اَب ہم یہ فرض کر رہے ہیں کہ آئندہ مہینوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا سیلاب آنے والا ہے جو پچھلی تین دہائیوں میں نہیں آیا اور اس سے ہر چیز گہنا جائے گی۔ اتنی سرمایہ کاری تو سی پیک کے تحت بھی ایک سال میں نہیں آئی۔ اور پھر 10 ارب ڈالر کے ڈپازٹس گزشتہ دہائی میں پاکستان کے مجموعی ڈپازٹس سے زیادہ ہیں۔

اگر اس پیمانے پر فنڈز یا محض ایک حصہ بھی عملی شکل میں پاکستان کو مل جاتا ہے تو وہ بلاشبہ معاشی ترقی کو اس سطح تک لے جائے گا جو شاید نائن الیون کے بعد کے سالوں میں آخری بار دیکھی گئی تھی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاسی منظر نامہ ڈرامائی طور پر بدل جائے گا۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کی پریشانیاں دِنوں میں بھلا دی جائیں گی۔ نواز شریف کو جلا وطنی جاری رکھنا پڑے گی اور غالب امکان ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ کنگز پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ ملکی سیاست تیزی سے عسکری قیادت کے پیچھے صف آراء ہو جائے گی۔

لیکن اگر معیشت کی بڑی بڑی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے کافی مقدار میں فنڈز دستیاب نہیں ہوتے تو گویا ہم ایک بار پھر ابتدائی مرحلے پر آ جائیں گے۔ اس وقت پاکستان سخت معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، شرح سود میں مزید اضافہ اور مزید ٹیکسوں کا سامنا ہے۔

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)، جو بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے بنائی گئی ہے، وہ بالکل نئی قسم کی گاڑی نہیں۔ ہر کوئی اعتراف کرتا ہے کہ پاکستان میں کاروباری ماحول اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ اب یہ ملکی یا غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک نہیں کر سکتا۔ یہ معاہدوں کو یقینی طور پر عملی شکل میں ڈھالنے کی ضمانت نہیں دے سکتا اور نہ ہی مستقبل بین پالیسیوں اور میکرو اکنامک اصلاحات کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے جس کے تحت سرمایہ کار طویل المدتی کیش فلو کی منصوبہ بندی کریں۔

ایسی صورتحال میں ہر کوئی سوچے گا کہ کاروباری ماحول کو پہلے ٹھیک کیا جانا چاہیے۔ تاہم ہر بار ہمارا وطیرہ اسی ماحول میں رہتے ہوئے اپنی جگہ پکی کرنے کی حد تک رہا ہے۔  

کئی سالوں تک ہم نے سپیشل اکنامک زونز دیکھے، کئی ایمنسٹی سکیمیں بنیں جہاں بے تحاشا دولت کا پتہ چلنے پر اس کے ذرائع پوچھنے سے متعلق رولز کو چند منتخب افراد کے لیے عارضی طور پر معطل کیا جاتا رہا تاکہ غیر اعلانیہ دولت مرکزی دھارے میں شامل ہو سکے۔

ابھی حال ہی میں سی پیک ایک اور مثال تھی جہاں چینی سرمایہ کاری اور دیگر ادائیگیوں پر عمل درآمد کے طریقہ کار یا ٹیرف کی شرح بارے خصوصی قواعد متعارف کرائے گئے، اب ہمارے پاس ایس آئی ایف سی ہے۔

ایس آئی ایف سی کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی اس میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے۔ مگر دو چیزوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ پہلی یہ کہ کوئی کاروباری فرد ایمنسٹی سکیم کی طرز کی ایسی تجویز دے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت آنے والی سرمایہ کاری میں دولت کے ذرائع نہ پوچھے جائیں تو معلوم پڑ جانا چاہیے کہ دراصل وہ کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ 

دوسری چیز دھیان میں رکھنے کی یہ ہے کہ کچھ مقامی سرمایہ کار پراپرٹی سیکٹر کو بھی سرمایہ کاری کونسل کے تحت لانے کی تجویز دیں گے۔ مگر یاد رہے ایک بار ایسا ہونے کے بعد آپ کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ پرانا کھیل ہی نئے قواعد کے ساتھ چل رہا ہے۔ اگر اس طرح کی تجاویز منظور کی جاتی ہیں تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اس کا نام بھی تبدیل کر کے سپیشل انٹرسٹ فیسیلی ٹیشن کونسل رکھ دیں۔

بیرونی ڈالرز حقیقت میں آتے ہیں یا نہیں، ہم یہ جاننے کے لیے انتظار کر سکتے ہیں۔ جس چیز کا ہم انتظار نہیں کر سکتے وہ یہ ہے کہ میکرو اکنامک استحکام کو بحال کرنے کے لیے درست اصلاحاتی ایجنڈے پر آگے نہ بڑھنے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ ہم زیادہ وقت سرابوں کا پیچھا کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ پوری معیشت کو چلانے کے لیے ایک گاڑی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنا بالکل ایسے ہی غلط ہے جیسے ماضی کی انجینئرڈ ترقی کی کوششیں غلط تھیں۔ 

نوٹ: یہ تحریر انگریزی میں ڈان میں شائع ہوئی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here