لاہور: پاکستان گیس پورٹ نومبر میں ترسیل کے لیے سپاٹ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کارگو خریدنے کے لیے کوشاں ہے جو جون 2022ء کے بعد ملک کی پہلا سپاٹ ایل این جی ڈیل ہو گی۔
خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان گیس پورٹ کے چیئرمین اقبال احمد بتایا کہ پاکستان گیس پورٹ امریکا، عمان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں فروخت کنندگان سے ایل این جی کارگو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
شدید اقتصادی مسائل اور غیرملکی زرمبادلہ کے بحران کا سامنا کرنے والے پاکستان کو گزشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کے سبب ایل این جی خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے جو پاکستان کے لیے اس لیے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ بجلی کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی قدرتی گیس سے پیدا کیا جاتا ہے اور 23 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے مقامی گیس کے ذخائر ناکافی ہیں جس کی وجہ سے صارفین کو بجلی کی فراہمی میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔
اقبال احمد نے کہا کہ پاکستان گیس پورٹ عمان، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں فروخت کنندگان کی طرف سے کارگو کے لیے دلچسپی کا جائزہ لے رہا ہے۔
پاکستان گیسپورٹ پورٹ قاسم پر ملک کے سب سے بڑے ایل این جی کی درآمد اور ری گیسیفکیشن ٹرمینل کا مالک ہے لیکن ایل این جی کی درآمدات کو تاریخی طور پر پاکستان ایل این جی نے سہولت فراہم کی ہے، جو ایک سرکاری فرم ہے جس نے آخری بار جون 2022 میں پیٹرو چائنا سے سپاٹ کارگو خریدا تھا۔
اقبال احمد نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ سالوں میں ایل این جی کی قیمتوں میں کمی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے پہلی مرتبہ ایک کارگو لایا جائے گا، قیمتیں کم ہونے سے سپاٹ ایل این جی کی خریداری مزید پرکشش ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یا کوئی اور کمپنی ایل این جی برینٹ کے 12 فیصد یا اس سے کم قیمت پر لا سکتا ہے تو مارکیٹ موجود ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان کی ایل این جی کی طلب پانچ سالوں میں بڑھ کر 3 کروڑ میٹرک ٹن ہو جائے گی، جو اَب تقریباً ایک کروڑ سے ایک کڑوڑ 20 لاکھ ٹن ہے۔
ملک میں تمام اشیاء کے درآمد کنندگان کو جاری معاشی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے مالیاتی اخراجات میں اضافے اور پروسیسنگ کے زیادہ اوقات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایل این جی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ فروخت کنندگان پاکستان کی کم کریڈٹ ریٹنگ کی وجہ سے پریمیم کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
اقبال احمد نے کہا کہ پاکستان گیس پورٹ بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ نہ مانگ کر ذاتی فنڈز کے ساتھ معاہدے کی مالی اعانت کے ذریعے ایسے چیلنجز سے بچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ادائیگیوں کا عمل آسان بنانے کے لیے ڈالر کے علاوہ کوئی دوسری کرنسی بھی استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ادائیگی کے لیے نیم بارٹر سسٹم بھی استعمال کرتے ہیں۔