لاہور: کسی ملک کی معیشت کی خرابی بالخصوص ایسی چیز نہیں جس کا کوئی آسان یا فی الفور حل نکالا جا سکے۔ پھر بھی بہت کم مینڈیٹ کے ساتھ موجودہ نگراں حکومت ملک کو ڈوبتی معیشت سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ روپے کوانٹربینک مارکیٹ میں بڑھتے ہوئے 2.04 روپے ڈالر کے مقابلے میں 306.98 کے بند ہونے اور304.94 پر آنے کے لئے کچھ کھڑا ہونے کا موقع ملا۔ شاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر 307 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جو کہ 7 ستمبر کے 312 روپے سے 5 روپے کم ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے 6 ستمبر کو ایکسچینج کمپنیوں (ECs) کے شعبے میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کرانے کے فیصلے کے بعد انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق کو ختم کیا گیا۔
ادھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے تاجروں کے ایک وفد کو بتایا کہ حکومت ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے ٹیکس نظام میں اصلاحات کر رہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے معاشی ترقی کے لیے ٹیکس وصولی کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی روز سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی فارن ایکسچینج مارکیٹ کی نگرانی تیز کردی اور بینکوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ غیر ملکی کرنسی کے لین دین کے لیے علیحدہ ادارے قائم کریں اور کرنسی کے ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا دائرہ بڑھایا جائے۔ سٹیٹ بینک کے محاذ پر بہت سے بروکریج ہاؤسز نے کہا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ 14 ستمبر کو ہونے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے اجلاس میں سٹیٹ بینک کلیدی پالیسی کی شرح میں 150 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کا اضافہ کرے گا کیونکہ اس سے ملک میں مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت یاد رکھنا چاہیے کہ نگران حکومت کو پاک فوج کی مدد حاصل ہے۔ منی ایکسچینج کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا سٹیٹ بینک کا فیصلہ چند روز بعد سامنے آیا جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے سرکردہ کاروباری شخصیات کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں انہیں یقین دلایا کہ مقررہ وقت میں زرمبادلہ کی شرح میں شفافیت ہوگی۔
7 ستمبر کو جی ایچ کیو میں 259 ویں کور کمانڈرز کانفرنس نے اقتصادی ترقی، استحکام اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرنے والی تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں حکومت کی “دلجمعی کے ساتھ ” مدد کرنے کا عزم کیا۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) میں فوج کی پہلے سے ہی سرگرم عمل ہونے سے یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ معیشت کو اب بہت احتیاط سے سنبھالا جا رہا ہے۔
اس میں اچھی خبر یہ ہے کہ اب ایک واضح سمت کا تعین ہوتا نظر آرہا ہے جس میں معیشت کو سنبھالا جا رہا ہے۔ فوجی قیادت کی حمایت سے نگران حکومت نے او ایم سی مارجن بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے پٹرول کی قیمت بھی بڑھے گی۔ عام طور پر حکومتیں او ایم سی کا انتظار کرتی ہیں کہ ان کا مارجن نہ بڑھانے سے وہ کہیں ہڑتال کی دھمکی نہ دے دیں۔ حکومت مہنگائی بڑھنے کے باوجود گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرنے جارہی ہے۔
پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے دوران اسحاق ڈار کی غلطی اور ڈیفالٹ کے خطرے نے معیشت کو تہس نہس کر دیا۔ فیصلے نہیں کیے گئے یا فیصلہ سازی میں دیر کی گئی، اور پاکستان کو ایسے دوراہے پہ لا کھڑا کیا گیا جہاں مستقبل دھندلا نظر آرہا تھا۔ شاید اس لیے کہ نگرانوں کے ذہن میں دوبارہ انتخابات کروانے کی فکر ہی نہیں ہے۔ وہ ایسے کسی مشکل فیصلے کی فکر نہیں کرتے جو مختصر مدت میں مزید مہنگائی اور روزمرہ کے لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بنیں۔
تاہم، بری خبر یہ ہے کہ نگراں حکومت صرف اتنا کچھ کر سکتی جتنا آئین و قانون اس کو کرنے کی اجازت دیتا ہے، وہ سخت اور غیر مقبول فیصلے نہیں لے سکتی۔ طویل مدتی میکرو اکنامک اصلاحات کے لیے مینڈیٹ والی حکومت کی ضرورت ہے۔ نگران حکومت کے پاس ابھی کے لیے مینڈیٹ بھی ہے اور صحیح پشت پناہی بھی، مگر انتخابات کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ یہ بہت ضروری ہے کہ کم از کم اس طرح کے ابہام دور کرلیے جائیں تاکہ بیمار معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے کھل کر مزید اقدامات کیے جائیں۔