آئی ایم ایف کا نگراں حکومت پر سرکاری اداروں کی نجکاری کیلئے دبائو

110

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے نگراں حکومت سے کہا ہے کہ وہ 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرے، جس میں اخراجات کو کم کرنا اور ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنا شامل ہے۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ معاہدے کے مطابق 203 سرکاری کمپنیوں کو وزارتوں سے ہٹا کر وزارت خزانہ کے ماتحت کیا جائے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا موقف تھا کہ متعلقہ وزارتوں کے ذریعے ان سرکاری کمپنیوں کی انتظامیہ بہتری کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا خیال ہے کہ بجلی کے شعبے میں پیداواری اور تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات میں ناقص گورننس کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے جبکہ پیٹرولیم سیکٹر کی منافع بخش تیل اور گیس کمپنیوں کو بھی بھاری نقصان کا سامنا ہے۔

وزارت خزانہ نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف رواں مالی سال پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، آر ایل این جی پاور پلانٹس اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری چاہتا ہے۔

نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری اور تنظیم نو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

کابینہ کمیٹی نے وزارت ہوا بازی کو نجکاری کمیشن کے ساتھ مل کر پی آئی اے کے لیے ایک واضح ٹائم فریم ورک کے ساتھ ترتیب وار تفصیلی ایکشن پلان پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے انتظام میں نجی شعبے کو شامل کرنے کے لیے ایک قابل عمل منصوبہ پیش کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

سیکریٹری نجکاری کمیشن نے شرکاء کو خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) بشمول ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، سروسز انٹرنیشنل ہوٹل، پی ایس ایم، ایچ بی ایف سی، روزویلٹ ہوٹل نیویارک، پی آئی اے، آر ایل این جی پاور پلانٹس اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری سے متعلق مسائل سے آگاہ کیا۔

وزیر خزانہ نے خسارے میں چلنے والے SOEs کی نجکاری کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ عمدہ کارکردگی، پیداواری صلاحیت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مجموعی محصولات میں اضافہ کیا جا سکے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here