دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کو اِن دنوں متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ جیساکہ رئیل اسٹیٹ بحران، چِپس اور سیمی کنڈکٹرز کی پابندیاں اور لیبر مارکیٹ میں اتار چڑھائو۔ تاہم اِن تمام مسائل سے بڑا بحران یہ درپیش ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے چینی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
مئی 2023ء میں چین کے شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 21 فیصد تھی جو دو سال قبل 15 فیصد پر تھی۔ دنیا کی دوسری بڑی آبادی کے حامل مُلک کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی کیا وجوہات ہیں اور چینی حکومت اس مسئلے کے انسداد کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ آج اسی پر بات کریں گے۔
مارچ 2021ء میں چینی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 13.60 فیصد تھی۔ چین کے شماریات بیورو (Bureau of Statistics) کے مطابق مئی 2023ء میں 15 سال سے 24 سال عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 20.8 فیصد تک پہنچ گئی۔ عمر کے مذکورہ گروپ میں تقریباََ 9 کروڑ 60 لاکھ نوجوان آتے ہیں اور ان میں سے 60 لاکھ نوجوانوں کے پاس تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی کام نہیں۔ اس مسئلے نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی تو چینی حکام نے بے روزگاری کے اعدادوشمار شائع کرنا ہی بند کر دئیے۔
کووڈ 19 کے بعد دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں کو جن بدترین مسائل کا سامنا کرنا پڑا، نوجوانوں میں بے روزگاری اُن میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 2022ء میں جی سیون (G7) ممالک کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی اوسط شرح تقریباََ 9 فیصد رہی۔ اس گروپ میں سب سے زیادہ تقریباََ 24 فیصد نوجوان اٹلی میں بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ فرانس میں تقریباََ 18 فیصد، کینیڈا میں 10 فیصد اور امریکا میں 7.89 فیصد نوجوانوں کو کام کے مواقع میسر نہیں جن کی عمریں 15 سال سے 24 سال کے درمیان ہیں۔ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل بھارت کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تقریباََ 23 فیصد ہے جبکہ تقریباََ 11 فیصد پاکستانی نوجوان کسی کام دھندے کے بغیر گزارا کر رہے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں کم عمر نوجوانوں کو افرادی قوت میں شامل کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاہم اٹلی اور سپین میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ البتہ چین کم عمر نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر سکھا کر لیبر مارکیٹ کا حصہ بنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں سے 15 سے 24 سالہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری چینی حکومت کیلئے باعثِ تشویش ہے۔ ماہرین کے مطابق گریجوایٹس کو جلد نوکریاں نہ ملنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ جیسا کہ بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی نے لیبر مارکیٹ کا منظر نامہ بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ بالخصوص ہائی ٹیک سیکٹر مکمل طور پر تبدیلی کے زیر اثر ہے۔ اسی طرح چینی حکومت کی جانب سے کئی شعبوں کو ریگولرائز کرنے کیلئے متعارف کرائی سخت پالیسیوں کی وجہ سے اُن شعبوں میں نوکری حاصل کرنا نئے گریجوایٹس کیلئے پہلے جیسا آسان نہیں رہا۔
لیکن مذکورہ دونوں وجوہات سے ہٹ کر کووڈ کے بعد سے چینی معیشت اور کاروبار سست روی اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ کمپنیاں نئے ملازمین بالخصوص نوجوانوں کو بھرتی کرنے سے ہچکچا رہی ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ جس نوجوان کی تربیت پر وہ سرمایہ کاری کریں وہ کب تک اُن کے ساتھ کام کرے یا اُن کا بزنس کب تک چلے۔ دراصل کووڈ کے بعد دنیا کی دیگر معیشتوں کی طرح چینی معیشت بھی آگے بڑھنے کی تگ و دو کر رہی ہے۔
گزشتہ دو تین دہائیوں میں چینی سرمایہ کاروں نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بے تحاشہ دولت لگائی ہے۔ اس شعبے سے وابستہ لوگ ارب پتی بن گئے۔ پھر کووڈ 19 آیا اور اس نے سب کچھ الٹ کر رکھ دیا۔ 2018ء میں جو رئیل اسٹیٹ سیکٹر سالانہ 8.3 فیصد کی شرح سے اوپر جا رہا تھا وہ 2022ء میں 8.4 فیصد سالانہ کے حساب سے نیچے آنے لگا۔ ایور گرانڈے (Evergrande) اور کنٹری گارڈن (Country Garden) جیسے بڑے ڈویلپرز دیوالیہ ہو گئے۔ سٹاک مارکیٹ میں رئیل اسٹیٹ فرمز کا کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس 78 فیصد کم ہو گیا۔
چینی حکومت کی معاشی پالیسیوں بالخصوص امریکا اور یورپ کے ساتھ تجارتی محاذ آرائی اور شرح سود میں کمی جیسے اقدامات نے مجموعی طور پر معیشت کی سست روی میں کردار ادا کیا۔ حکومت کی زیرو کووڈ پالیسی نے بھی مارکیٹ میں شکوک و شہبات اور غیریقینی کو بڑھاوا دیا۔
ایک تحقیق کے مطابق 2010 سے 2012ء کے دوران چینی خاندانوں کی دولت میں 51 فیصد اضافہ ہوا اور ایسا گزشتہ ہزار برس میں بھی نہیں ہوا تھا۔ اس دوران امیر ہونے والے خاندانوں کے بچوں کو موجودہ بے روزگاری کی لہر میں نوکری ہونے یا نہ ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یوں تو چین میں مجموعی بے روزگاری کی شرح 5.2 فیصد ہے۔ یہ 25 سال سے 59 سال کے وہ افراد ہیں جن کے پاس یا تو بالکل نوکریاں نہیں ہیں یا پھر جزوی ملازمتیں موجود ہیں۔ مارچ 2023ء میں تقریباََ 2 لاکھ سول سروس کی خالی اسامیوں پر نوکری حاصل کرنے کیلئے تقریباََ 77 لاکھ چینی نوجوانوں نے امتحان دئیے۔ چین میں نوجوان سٹارٹ اپس، کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سیاحت کے شعبوں میں نوکریوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ 2010ء سے قبل مینوفیکچرنگ سیکٹر چین میں سب سے زیادہ نوکریاں پیدا کرتا تھا۔ یہ صورتحال تبدیل ہوتی گئی اور مینوفیکچرنگ کی جگہ سروسز سیکٹر نے لے لی جہاں زیادہ آمدن والی نوکریاں نہیں تھیں۔
ہواوے، علی بابا اور ٹین سینٹ (Tencent) جیسی دیگر ٹیک کمپنیوں نے گزشتہ عشروں کے دوران نوجوانوں کیلئے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کیے تاہم چینی حکومت کے سخت گیر اقدامات اور پالیسیاں ایسی کمپنیوں میں نئے مواقع کی راہ میں اُس وقت رکاوٹ بن گئیں جب بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف حکومت نے 2020ء میں کریک ڈائون شروع کیا۔ ان کارروائیوں سے اُن کمپنیوں کی پیداواری استعداد (productivity) متاثر ہوئی اور انہیں سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکالنا پڑا جس کے باعث نئے ملازمین کیلئے مواقع بند ہونا فطری بات تھی۔ حتیٰ کہ علی بابا کو دنیا کا سب سے بڑا آئی پی او روکنا پڑا۔
بظاہر چین کی توجہ طویل المدتی پالیسی پر مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید معاشی دبائو نظر آ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ آئندہ سالوں میں سروسز اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز کی بجائے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری زیادہ ہو گی بالخصوص مصنوعی ذہانت کے میدان میں۔ لیکن مستقبل قریب میں کئی ملازمتوں کو مصنوعی ذہانت سے بھی خطرہ درپیش ہے۔