دنیا کی تقریباََ 8 ارب سے زائد آبادی میں سے 5 ارب 30 کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اُن میں سے تقریباََ پونے 3 ارب افراد وَٹس ایپ (WhatsApp) استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی میسجنگ ایپ کے ذریعے روزانہ تقریباََ 100 ارب میسج بھیجے جاتے ہیں۔
170 انڈسٹریز کے بارے میں انسائٹس اور اعدادوشمار فراہم کرنے والی ویب سائٹ سٹیٹسٹا (Statista) کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سوشل میڈیا ایپ ٹِک ٹاک ہے تاہم میسجنگ ایپس میں وٹس ایپ پہلے نمبر پر ہے جبکہ دوسرے نمبر پر چین کی وی چیٹ (WeChat) ہے۔ فیس بُک میسنجر تیسرے نمبر ہے۔
’’بزنس آف ایپس‘‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق 2022ء میں دنیا میں سب سے زیادہ ڈائون لوڈز تقریباََ 67 کروڑ 20 لاکھ ٹِک ٹاک کے تھے۔ اس کے بعد 54 کروڑ 80 لاکھ انسٹاگرام، 44 کروڑ 90 لاکھ فیس بک اور تیسرے نمبر پر 42 کروڑ 40 لاکھ ڈائون لوڈز وٹس ایپ کے ہوئے۔
سوشل میڈیا ایپس کی بنیادی آمدن اشتہارات سے آتی ہے تاہم وٹس ایپ اشتہار بھی نہیں چلاتی۔ تو پھر یہ کماتی کہاں سے ہے اور سالانہ کتنا کماتی ہے؟
وٹس ایپ کی مالک کمپنی میٹا نے کبھی اس کے ریونیو کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے۔ میٹا کی دیگر سوشل ایپس انسٹاگرام اور فیس بک اشہارات سے سالانہ اربوں ڈالر کماتی ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ وٹس ایپ کی آمدن 50 کروڑ ڈالر سے ایک ارب ڈالر کے درمیان ہے لیکن اس کا موازنہ اگر میٹا کے مجموعی ریونیو سے کیا جائے تو 2022ء میں میٹا کا ریونیو 117 ارب ڈالر رہا۔ اس لحاظ سے وٹس ایپ کا میٹا کے ریونیو میں شئیر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
وٹس ایپ 2009ء میں یاہو (Yahoo) کے دو سابق ملازمین برائن ایکٹن (Brain Acton) اور جان کُم (Jan Koum) نے بنائی۔ اس ایپ کا ابتدائی تصور یہ تھا کہ صارفین اپنا سٹیٹس ظاہر کر سکیں۔ یعنی آپ لوگوں کو بتا سکیں کہ فلاں لمحے آپ بال کٹوا رہے تھے یا جِم میں تھے۔
لیکن جلد ہی لوگوں نے اس ایپ کے ذریعے ٹیکسٹ پیغامات بھیجنا شروع کر دیے کیونکہ اُس وقت ٹیکسٹ میسج بھیجنا کال کرنے جتنا ہی مہنگا تھا۔ یہ دیکھ کر دونوں ڈویلپرز نے فیصلہ کیا کہ وٹس ایپ کو مکمل میسجنگ ایپ کی شکل دے دی جائے۔ وٹس ایپ نے ابتدائی طور پر امریکا میں ایک ڈالر سالانہ فیس رکھی جو 2016ء تک لی جاتی رہی۔ حالانکہ اُس وقت بلیک بیری کی مفت ٹیکسٹ میسج سروس ’’بی بی ایم‘‘ بھی موجود تھی۔ تاہم بلیک بیری ہر کسی کے پاس تھا ہی کب؟
اس کے ساتھ ہی وٹس ایپ نے میسج سروس کے ساتھ ساتھ کالز کی سہولت بھی مفت کر دی۔ اس اقدام نے دنیا بھر میں وٹس ایپ کو مقبول بنا دیا، کیونکہ انٹرنیشنل کالز ہمیشہ مہنگی رہی ہیں تو اٹس ایپ کی وجہ سے یہ بالکل مفت ہو گئیں۔
2014ء میں فیس بک نے 19 ارب ڈالر میں وٹس ایپ کو خرید لیا۔ یہ فیس بک کی مہنگی ترین ایکوئزیشن (acquisition) تھی۔ تب وٹس ایپ کے صارفین کی تعداد 20 کروڑ تھی جو ہر روز تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ 2016ء میں وٹس ایپ نے دو طرفہ بات چیت کو محفوظ رکھنے کیلئے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن (end to end encrytion) متعارف کرائی۔ ڈیٹا کے تحفظ کے احساس نے لوگوں کو اس ایپ کی جانب تیزی سے راغب کیا اور اس کے صارفین کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔
تاہم 2017-18ء میں وٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی اور ڈیٹا کے تحفظ پر اختلافات کی وجہ سے دونوں بانیان ایکٹن اور جان کُم نے فیس بک کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ فیس بک کو وٹس ایپ کے ڈیٹا تک رسائی دے دی گئی تھی۔ تاہم اس سے بھی وٹس ایپ کی گروتھ کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ آج وٹس ایپ دنیا کے 180 ممالک میں استعمال ہوتی ہے اور یہ میسجنگ مارکیٹ کی گلوبل لیڈر بن چکی ہے۔
وٹس ایپ نے 2018ء میں بزنس ایپ متعارف کروائی تھی اور یہی اس کی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔ بڑی کمپنیاں اور کارووبار اپنی صارفین سے مخاطب ہونے کیلئے وٹس ایپ کو ایک مخصوص فیس ادا کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ائیرلائن بذریعہ میسج آپ کو فلائٹ شیڈول میں تبدیلی کے بارے میں بتاتی ہے یا آپ کا بینک رقم منتقلی سے متعلق تصدیقی کوڈ بھیجتا ہے تو یہ سب ریگولر میسجنگ کے ذریعے ہو رہا ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ وٹس ایپ کے ذریعے بھی ممکن ہے۔
وٹس ایپ کی پروڈکٹ ہیڈ ایلس نیوٹن ریکس کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں بزنس میسجنگ مارکیٹ کا حجم اگلے چار سے پانچ سالوں میں تقریباََ 50 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ فی الحال کمپنیوں کو زیادہ تر آمدن ریگولر میسجنگ ایپس سے آ رہی ہے تاہم آن لائن میسجنگ ایپس بھی اس میں سے بڑا حصہ حاصل کر سکتی ہیں اور وٹس ایپ اس مارکیٹ کی بڑی کھلاڑی ہے اور یہ میٹا اسی پر کام کر رہی ہے۔
یہ بزنس ایپ کے علاوہ نت نئے فیچرز متعارف کروا کر اپنی آمدن میں اضافے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ حال ہی وٹس ایپ نے ’’چینل‘‘ (channel) کا فیچر متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے صارفین نیوز فیڈ کی طرز پر بزنسز، کمپنیوں اور انفرادی جاننے والوں کے اپ ڈیٹس حاصل کر سکیں گے۔
پروڈکٹ ہیڈ ایلس ریکس کے مطابق وٹس ایپ کی جانب سے ’’پیمنٹ‘‘ کا فیچر بھی متعارف کرایا گیا ہے جو ابتدائی طور پر انڈیا اور سنگاپور میں کام کر رہا ہے اور جلد دنیا بھر میں متعارف کرائے جانے کا امکان ہے۔ اس کے ذریعے صارفین اپنا بینک اکائونٹ منسلک کرکے رقم بھیج اور وصول کر سکتے ہیں۔
تاہم وٹس ایپ کی زیادہ تر توجہ بزنس ایپ کے ذریعے پیسہ کمانے پر ہے۔ اس فیچر کو گزشتہ چند سالوں سے بالخصوص بھارت، برازیل اور انڈونیشیا جیسی بڑی مارکیٹوں میں ترقی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وٹس ایپ یہ فیچر استعمال کرنے والی کمپنیوں سے ایک مخصوص فیس وصول کرتی ہے جس کی شرح مختلف ممالک میں پیغامات کی کیٹیگری کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مارکیٹنگ پیغامات کیلئے فیس زیادہ ہے جبکہ کسی ملازم کی ترقی کے بارے میں اطلاعاتی پیغام کیلئے فیس کم ہے۔
لیکن اکثر کمپنیاں اس قسم کے ابلاغ کیلئے وٹس ایپ استعمال نہیں کرتیں۔ 95 فیصد کاروبار اور کمپنیاں ریگولر میسج سروس کا سہارا لیتی ہیں۔ تاہم ایپ انسائٹس پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے اور انہیں امید ہے مستقبل میں زیادہ کمپنیاں اور کاروبار وٹس ایپ بزنس پر آئیں گے۔ وہ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ زیادہ تر ٹیکسٹ میسج سروسز میں مخصوص حد تک الفاظ لکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ وٹس ایپ پر طویل پیغامات اور ڈاکومنٹس کی ترسیل بھی ممکن ہے۔
وٹس ایپ بزنس کیلئے پریمئم فیچرز متعارف کرانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ اس کیلئے ویب سائٹ کے ذریعے بیک وقت 10 کارپوریٹ اکائونٹس کو رسائی دی جا سکے گی۔
2020ء میں وٹس ایپ بزنس کے صارفین پانچ کروڑ تھے جبکہ جون 2023ء میں ان کی ماہانہ تعداد 20 کروڑ ہو چکی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بزنس میسجنگ کے ذریعے اگلے پانچ سے سات سالوں میں وٹس ایپ کی آمدن 7 ارب ڈالر سے 10 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جبکہ 2027ء تک وٹس ایپ کے صارفین کی مجموعی تعداد 4 ارب 10 کروڑ تک جا سکتی ہے۔