صابن کی دکان سے 140 ارب ڈالر کی ملٹی نیشنل کمپنی تک، جس کے 400 برانڈز 190 ملکوں میں 3 ارب سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں

532

 

آپ لَکس (Lux) یا لائف بوائے صابن سے نہاتے ہیں۔ بالوں کو سَن سِلک یا کلئیر شیمپو سے دھوتے ہیں۔ رنگ گورا کرنے کیلئے گلو اینڈ لَولی (Glow & Lovely) لگاتے ہیں۔ کنور (knorr) کے نوڈلز اور والز (Wall’s) یا کورنیٹو (Cornetto) کی آئس کریم کھاتے ہیں یا آپ کے کپڑے سرف ایکسل سے دُھلتے ہیں۔

تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی اُن 3 ارب 40 کروڑ افراد میں شامل ہیں جو دنیا بھر میں روزانہ یونی لیور کی پروڈکس استعمال کرتے ہیں۔ یونی لیور کا دعویٰ ہے کہ اس کے 400 سے زائد برانڈز 190 ممالک میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ کمپنی بچوں اور پالتو جانوروں کی خوراک، ہائی جینک پروڈکٹس، ہیلتھ کئیر اور سکن کئیر پروڈکٹس، انرجی ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس، آئس کریم، کافی، پانی اور ادویات سمیت ناجانے کیا کچھ بنا کر بیچتی ہے۔

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اتنی بڑی کمپنی کی ابتداء صابن کی ایک دکان سے ہوئی تھی۔

جی ہاں!

1884ء میں دو برطانوی بھائیوں ولیم  لیور (William Hesketh Lever) اور جیمز لیور (James Darcy Lever) نے اپنے والد کی گروسری شاپ سے صابن بنانے والی چھوٹی سی کمپنی شروع کی اور اس کا نام رکھا ’’لیور برادرز‘‘۔ 

اُس زمانے میں کیمسٹ ولیم ہاف واٹسن نے جانوروں کی چربی کی بجائے پام آئل میں گلیسرین اور دیگر کیمیکل ملا کر صابن بنانے کا فارمولا نیا نیا دریافت کیا تھا۔ لیور برادرز نے ولیم واٹسن کے فارمولے پر صابن بنانے کیلئے انہیں بھی کمپنی میں شامل کر لیا۔ یہ صابن لوگوں کو اس قدر پسند آیا کہ تین سالوں میں اس کی ہفتہ وار پیداوار 450 ٹن سے تجاوز کر گئی۔ اس کا نام تھا ’’ہنی سوپ‘‘ جو بعد میں بدل کر ’’سن لائٹ سوپ‘‘ رکھ دیا گیا۔ برطانیہ کے جس علاقے میں یہ صابن تیار ہوتا تھا وہ آج پورٹ سن لائٹ کہلاتا ہے۔

1895ء میں لیور برادرز نے امریکا میں بھی کاروبار شروع کر دیا، نیویارک میں سیلز آفس قائم کیا گیا جبکہ میساچیوسٹس اور کیمبرج میں صابن سازی کے کارخانے لگائے گئے۔ اگلے دو عشروں میں لیور برادرز امریکا کی تیسری بڑی سوپ مینوفیکچرر بن گئی اور اس نے برطانیہ، یورپ اور امریکا میں صابن بنانے والی دیگر کمپنیوں کو خریدنا شروع کر دیا۔

خام مال کی ضروریات پوری کرنے کیلئے 1911 تک لیور برادرز کے پاس بیلجئم کی کالونی کانگو اور سولومن آئی لینڈز (Soloman Islands) پر اپنے پام کے جنگلات تھے۔

ستمبر 1929ء میں لیور برادرز نے ڈچ کمپنی مارجرین یونی (Margarine Unie) کے ساتھ انضمام (meger) کر لیا اور نئی کمپنی کا نام رکھا گیا یونی لیور (Unilever)۔

1930ء میں اس کے ملازمین کی تعداد تقریباََ اڑھائی لاکھ تھی اور مارکیٹ ویلیو کے لحا‎‎ظ سے یہ دنیا کی پہلی امیر ترین ملٹی نیشنل کمپنی بن گئی۔

تاہم نوے کی دہائی تک امریکا اور کینیڈا میں کمپنی کے بزنسز کیلئے لیور بردارز کا نام ہی استعمال ہوتا رہا۔

1930ء میں ہی کمپنی نے یونائٹڈ افریقن کمپنی کو خرید لیا جو اُس زمانے کے افریقہ میں برطانوی تجارتی مفادات کا تحفظ کرتی تھی۔

پام آئل کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے 1933ء میں یونی لیور انڈونیشیا قائم کی گئی۔

دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے یونی لیور کیلئے یورپ میں سرمایہ کاری مشکل ہو گئی تو اس نے برطانیہ، امریکا اور کینیڈا میں نئی کمپنیوں کو خریدنے (acquire) پر سرمایہ کاری شروع کر دی۔

1943ء میں یونی لیور نے چائے بنانے والی مشہور کمپنی لپٹن (Lipton) کا امریکا میں بزنس خرید لیا جبکہ 1944ء میں پیک شدہ خوراک بیچنے والی برطانوی کمپنی بیچلرز پیز (Batchelors Paes) اور ٹوتھ پیسٹ بنانے والی امریکی کمپنی پیپسوڈینٹ (Pepsodent) کو خرید لیا۔

تاہم مسلسل خسارے کی وجہ سے 1945ء میں امریکا میں قائم دو ذیلی کمپمنیوں ٹی جے لپٹن اور لیور برادرز کے معاملات وہاں کی انتظامیہ کو سونپ دیے گئے۔

1954ء میں یونی لیور نے برطانیہ میں سَن سلک (Sunsilk)  جبکہ 1957ء میں امریکا میں ڈوّ (Dove) کے نام سے برانڈ متعارف کرائے۔ انہی سالوں میں کچھ مزید کمپنیاں بھی خریدی گئیں تاہم 60ء کی دہائی تک یونی لیور کی تقریباََ آدھی آمدن صابن، مکھن اور مرجرین وغیرہ کی فروخت سے آ رہی تھی۔ لیکن اسے پروکٹر اینڈ گیمبل (Proctoer & Gamble) جیسی سخت حریف کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے یونی لیور کو اپنی پروڈکٹ لائن کو متنوع (diversify) بنانا پڑا۔ 1971ء میں یونی لیور نے برطانیہ میں بھی لپٹن کو خرید لیا۔

70ء کی دہائی میں اس نے کچھ مزید ایکوزیشنز کیں اور یورپ میں آئس کریم کی مارکیٹ کا 30 فیصد شئیر حاصل کر لیا۔ 1984ء میں 39 کروڑ پائونڈز میں یونی لیور نے چائے فروخت کرنے والی کمپنی بروک بونڈ (Brooke Bond) کو خرید لیا۔

1986ء میں یونی لیور نے سکن کئیر مارکیٹ میں قدم رکھا اور امریکی کمپنی پونڈز (Chesebrough-Ponds) کو خرید لیا جبکہ 1989ء میں کالوِین کلائن (Cavin Klein) کا کاسمیٹکس ڈویژن ایکوائر کر لیا۔

ایکوئزیشنز کی دوڑ 90ء کی دہائی میں بھی جاری رہی تاہم اس دوران زیادہ تر آئس کریم، منجمد اور پیک شدہ خوراک بنانے والی کمپنیاں خریدی گئیں جن میں بین اینڈ جیری (Ben & Jerry’s) اور کنور (Knorr) قابلِ ذکر ہیں۔

2001ء میں یونی لیور کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فوڈ اور ’ہوم اینڈ پرسنل کئیر‘ ڈویژنز کو الگ الگ کر دیا۔ بعد ازاں اسے پانچ حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ کمپنی اتنی بڑی تعداد میں پروڈکٹس بنانے کیلئے برطانیہ، امریکا، نیدرلینڈز، بھارت اور چین میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لیبس بھی چلاتی ہے۔

بہت سوں کو شائد معلوم نہ ہوں کہ ہندوستان میں بناسپتی گھی متعارف کروانے میں بھی یونی لیور کا کردار ہے۔ یہ کمپنی 2003 تک ڈالڈا (Dalda) بناسپتی گھی کی مالک رہی۔

پاکستان میں یونی لیور 75 سالوں سے کام کر رہی ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں اس کے کم از کم 30 برانڈز 90 فیصد گھرانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ گزشتہ 13 سالوں سے یہ پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والی نجی کمپنی قرار پا رہی ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں یونی لیور کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 48 ہزار ہے۔ تقریباََ 190 ممالک میں اس کے 400 سے زائد برانڈز موجود ہیں اور دنیا میں تقریباََ 3 ارب 40 کروڑ افراد روزانہ اس کی پروڈکٹس استعمال کرتے ہیں۔ اس کے 13 برانڈز ایسے ہیں جن کی سالانہ سیلز تقریباََ ایک ارب ڈالر سے زائد ہیں۔

رواں سال فوربز میگزین نے یونی لیور کو دنیا کی بہترین 2 ہزار کمپنیوں کی فہرست میں 104 نمبر پر رکھا جبکہ خواتین کو ملازمت دینے کیلئے بہترین کمپنیوں میں 66ویں اور خواتین کیلئے محفوظ ترین کمپنیوں میں 57ویں نمبر پر شمار کیا۔

مجموعی طور پر یونی لیور کی سالانہ سیلز تقریباََ 63 ارب ڈالر، سالانہ منافع تقریباََ 8 ارب ڈالر، اثاثوں کی مالیت 83 ارب ڈالر اور مارکیٹ ویلیو 140 ارب ڈالر ہے۔

 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here