پاکستان کی وزارت خارجہ (ایم او ایف اے) نے وزارت خزانہ اور پاور ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ وہ چین کی پاور کمپنیوں کی جانب سے اٹھآئے گئےادائیگیوں کے خدشات کو دور کرے، کیونکہ یہ پاکستان اور چین کے درمیان مستقبل میں توانائی کے تعاون میں ممکنہ رکاوٹ ہے۔
بزنس ریکارڈر نے رپورٹ کیا ہے کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے حالیہ دورہ چین کے دوران دیگر مسائل کے علاوہ یہ مسئلہ زیر بحث آیا۔
چینی پاور کمپنیوں کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) نے سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے پاور پلانٹس جن میں چائنیز انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) شامل ہیں، ان کی 60 کروڑ ڈالر کی ادائیگیوں کو پاکستانی روپے سے امریکی ڈالر میں تبدیل نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
یہ مسئلہ پاور پرڈیوسرز کے لئے سنگین چیلنجز کا باعث ہے، حکومت پاکستان پر چینی پاور کمپنیوں کے 300 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔
دورے کے دوران وزیر توانائی محمد علی نے چینی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن (NEA) کے وائس ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات کی، جس میں ادائیگیوں کے خدشات کا اظہار کیا گیا۔
ذرائع نے واجبات کا فوری طور پر تصفیہ کرنے اور مستقبل میں ادائیگی کے طریقہ کار کو ہموار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ طویل عرصے سے زیر التوا مسائل کو حل کیا جا سکے۔
پاور ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ توانائی کے اگلے جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کے ڈرافٹ منٹس کے لیے چینی تجویز پر پاکستان کا موقف واضح کرے۔
مزید برآں ڈویژن پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی، خاص طور پر فوٹو وولٹک منصوبوں کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) کے لیے چینی تجویز پر پاکستان کے ردعمل کو مضبوط کرے۔
وزارت خارجہ نے پاور ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ گوادر میں 300 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کی تعمیر کی فزیبلٹی کے بارے میں وضاحت فراہم کرے۔