سی سی پی کو شوگر کارٹیل کے 44 ارب جرمانے کی وصولی میں رکاوٹوں کا سامنا

91

 

مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کو شوگر کارٹیل پر لگائے گئے 44 ارب روپے کے جرمانے کی وصولی میں تاخیر کا سامنا ہے، کیونکہ ملک بھر کی مختلف عدالتوں میں زیر التواء 127 درخواستیں پیش رفت میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق عدالتوں کی طرف سے جاری حکم امتناعی کی وجہ سے سی سی پی کو سزاؤں پرعمل درآمد میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس وقت مختلف عدالتوں میں شوگر کے 127 زیر التوا کیسز ہیں، جن میں سے سپریم کورٹ میں 24، لاہور ہائی کورٹ میں 25، سندھ ہائی کورٹ میں 6، اور مسابقتی اپیلٹ ٹریبونل میں 72 کیسز ہیں۔

جولائی 2023 سے مسابقتی اپیل ٹربیونل غیر فعال ہے، جومعاملات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔

ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کا معاشی منظر نامہ طویل عرصے سے مارکیٹ کی طاقت کے ارتکاز اور مختلف شعبوں میں خرابیوں سے دوچار ہے، جس میں چینی کی صنعت ایک قابل ذکر مثال ہے۔ سی سی پی کو شوگر انڈسٹری کے بااثر عناصر کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً 84 شوگر ملیں 10 لاکھ ہیکٹر رقبے پر 8 کروڑ ٹن کاشت شدہ گنے سے سالانہ 60 سے 80 لاکھ میٹرک ٹن چینی پیدا کرتا ہیں۔ اس صلاحیت کے باوجود قوم کو باقاعدگی سے چینی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ چینی کی صنعت نمایاں منافع جمع کر رہی ہے۔

چینی کی قیمتیں کارٹیلز، سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی سے متاثر ہوتی ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، جس کا مقصد چینی کی قیمتوں کو کم کرنا اور مستقل فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

چینی کی قیمتیں سپلائی اور ڈیمانڈ کے عام اصولوں سے ہٹ جاتی ہیں، کیونکہ طاقتور مل مالکان قیمتیں بڑھانے کے لیے نظام میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔  اضافی سٹاک کا حوالہ دے کر اس ہیرا پھیری میں اکثر حکومت پر دباؤ ڈالنا شامل ہوتا ہے کہ وہ سال کے وسط میں چینی کی برآمدات کی اجازت دے۔

تاریخی طور پر شوگر ملوں نے چینی کی برآمدات کے لیے دی جانے والی ایکسپورٹ سبسڈی کے ذریعے اربوں کی کمائی کی ہے۔ تاہم چینی کی برآمدات کی اجازت دینے سے ملکی قلت میں اضافہ ہوتا ہے، جو ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ سے بڑھ جاتا ہے، جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here